فائنل میں کوچ کی کمی محسوس ہوئی
حافظ محمد عمران
اٹھارہ سال بعد پاکستان کیلئے ورلڈ ایمیچور سنوکر چیمپئن شپ کاٹائٹل جیتنے والے پاکستانی کھلاڑی محمد آصف کا کہنا ہے کہ فائنل میں جب آخری لمحات میں مقابلہ آٹھ آٹھ فریمز سے برابر تھا تو میں پریشان ہوا تھا ایک لمحے کو یوں لگا کہ شاید میچ میرے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ مجھے اپنے اردگرد بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔ ایسے موقع پر کوچ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اردگرد دیکھا کوئی نظرنہ آیا کیونکہ ہمارے پاس تو کوچ ہی نہیں تھا ہم کوچ کے بغیر ہی ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ کھیلنے کیلئے گئے تھے میں نے پُر سکون ہونے اور اس سخت اور اہم مقابلے کے اختتامی اور فیصلہ کن لمحات میں کھیلنے کیلئے پانچ منٹ کاٹائم آﺅٹ لیا اس دوران میں نے منہ دھویا،دعا مانگی کہ کسی طرح یہ دو فریم جیت جاﺅں ٹائم آﺅٹ کے دوران مجھے خود کو پُر سکون کرنے اور آخری دو فریمز میں بہتر کھیل پیش کرنے کا اچھا موقع ملا،اللہ کے فضل سے میں کامیاب رہا میں سمجھتا ہوں کہ گیری ولسن کے خلاف آخری دو فریمز میں میں نے اپنی زندگی کا بہترین کھیل پیش کیا۔میں وہ لمحات کبھی فراموش نہیں کرسکتا جب میں نے وننگ شارٹ کھیلا اور ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ کا ٹائٹل حاصل کیا۔ میری یہ کامیابی والدین اور قوم کی دعاﺅںکا ثمر ہے۔محمد آصف نے کہا کہ گیری ولسن آسان حریف نہ تھا تاہم میں ٹورنامنٹ کے آغاز سے ہی چیمپئن بننے کیلئے پُر امید تھا۔ٹورنامنٹ میں قسمت نے بھی میرا بھرپور ساتھ دیا اور میں دستیاب موقاع سے فائدہ اٹھاتا اپنی منزل کی جانب بڑھتاچلا گیا۔لیگ میچوں سے ناک آﺅٹ اور پھر سیمی فائنل اور فائنل مجھے کسی بھی جگہ بہت زیادہ پریشانی یا مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ مشکل سفر دعاﺅں کی بدولت آسان ہوا۔ ورلڈ چیمپئن نے کہا کہ ہم جن حالات میں بلغاریہ روانہ ہوئے وہ اچھے نہ تھے اور عوامی سطح پر بھی ہم سے زیادہ امیدیں اور توقعات نہ تھیں تاہم جو لوگ مجھے قریب سے دیکھ رہے تھے اور میرے کھیل کا مشاہدہ کر رہے تھے میرے ساتھ ساتھ وہ بھی میرے حوالے سے پُر امید تھے ،مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود میں ورلڈ ٹائٹل جیتنے کیلئے پُر امید تھا۔محمد آصف نے کہا کہ وطن واپسی پر عوامی سطح پر پذیرائی اور استقبال نے حوصلہ بلند کیا۔کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باوجود بڑی تعداد میں ائیر پورٹ استقبال کیلئے آنے والے افراد کا مشکور ہوں۔انہوں نے کہا کہ اپنی کامیابی کو والدین اور عوام کے نام کرتا ہوں تاہم اس فتح میں 1994 کے عالمی چیمپئن محمد یوسف اور لاہور میں میرے استاد ہیں ان کابہت بڑا ہاتھ ہے۔میں نے اپنے سینئرز سے بہت کچھ سیکھا ہے اور سینئرز کی رہنمائی سے ہی اس قابل ہوا ہوں کہ پاکستان کیلئے عالمی اعزاز جیت سکوں۔ ورلڈ چیمپئن نے کہا کہ کھیل کے فروغ کیلئے کھلاڑیوں کی مستقل ملازمتوں کا مسئلہ حل ہوناچاہئے۔فکر معاش میں گرے کھلاڑی آخر کب تک اپنی مدد آپ کے تحت کھیلتے رہیں گے،اگر ہم اپنے کھلاڑیوں کو اچھی ملازمتیں دیدیں ان کا مستقبل محفوظ ہوجائے تو ملک میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ ہم مسلسل ورلڈ ٹائٹل جیت سکتے ہیں۔یہ ا یک ایسا کھیلا ہے جس میں کھلاڑ ی کو ذہنی طورپر بہت مضبوط اور پُر سکون رہناپڑتا ہے۔ایک لمحے کی غلطی کامیابی سے بہت دور کرسکتی ہے۔ملک میں بکھرے ٹیلنٹ کو سنبھالنے کیلئے اکیڈمیز کا قیام بہت ضروری ہے۔پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے ساتھ پی۔بی۔ایس ۔ اے کا جلد الحاق ضروری ہے ،سکول ،کالج ،یونیورسٹی کی سطح پر مقابلوں کے انعقاد سے کھیل کو فروغ مل سکتا ہے۔