مشاہد حسین کو وزیر دفاع بنایا جائے؟
مشاہد حسین ہماری سیاست میں پڑھا لکھا آدمی ہے اور اپنے طرز اظہار میں بھی پسندیدہ ہے۔ وہ کھُلی ڈھلی بات کرتا ہے مگر شیخ رشید اور اس کے درمیان موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ مشاہد حسین ایک جینوئن آدمی ہے۔ میں اس کے دانشور بھائی مواحد حسین کو اپنے خیالات میں زیادہ علم دوست خیال کرتا ہوں۔ یہی اس کی میری دوستی کی بنیاد بنی۔ جبکہ مشاہد حسین سے میری ملاقات پہلے سے ہے۔ اُن کا پینڈو اندازِ گفتگو بھی پسند ہے۔ جس میں جدید علوم اور انفارمیشن کا تڑکا بھی ہوتا ہے۔ ان کا یہ جملہ زبان زدِعام ہوا تھا ”کڑاکے کڈھ دیاں گے“اس نے کچھ دن پہلے وزیر دفاع کے کڑاکے کڈھ دئیے ہیں۔ مجھے کسی وزیر دفاع کا نام یاد نہیں۔ مجھے یہی بس یہی یاد ہے کہ احمد مختار وزیر دفاع تھے۔ اُنہیں تو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ دفاع ہوتا کیا ہے۔ وہ صرف اپنی ذات کے لئے جارحانہ حملوں میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ جملوں کے نیچے نقطہ ڈال لیتے ہیں۔ سیاست میں جملوں کو حملوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گجراتی ہونے کے لئے اپنے ثبوت کی خاطر چودھری صاحبان کے خلاف بیان دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں بھی ایک بے معنی بیان انہوں نے دیا تھا۔ جس کے لئے صدر زرداری نے آنکھیں دکھائیں تو بیان اس طرح واپس لے لیا کہ چودھری صاحبان کے لئے محبت کا اظہار کیا اور چودھری شجاعت کو بڑا بھائی قرار دیا۔ اب منظور وٹو کو بھی گجرات کے کمپلیکس میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ گجرات میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے امیدوار کی شکست کا ذمہ دار بھی منظور وٹو کو قرار دیا جا رہا ہے۔ مشاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک بھی وزیر دفاع کام کا نہیں آیا۔ تو مجھے احمد مختار یاد آ گئے۔ ہمیشہ سیکرٹری دفاع کو اہم سمجھا جاتا ہے اور اکثر بلکہ تقریباً ہمیشہ کوئی ریٹائر جنرل ہوتا ہے۔ صدر اگر آرمی چیف ہو تو بھی یہ عہدہ غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ نااہل ”وزیراعظم“ یوسف رضا گیلانی نے لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کو نکال دیا اور اپنی قابل اعتماد نرگس سیٹھی کو اپنی سیکرٹری کے علاوہ اضافی چارج سیکرٹری دفاع کا دے دیا۔ یہ بھی اس عہدے کی توہین ہے عسکری، بیوروکریسی کے مقابلے میں سول بیورو کریسی بھی سیاستدانوں کو تھلے لگائے رکھتی ہے۔ نرگس نے وقتی طور پر کام چلا لیا کہ ان کا انداز بھی ”فوجیانہ“ تھا۔ جسے افسرانہ کہتے ہیں۔ میں بیورو کریٹ یعنی افسران بالا کو افسران تہہ و بالا کہتا ہوں۔ یہ افسروں کی تکنیک ہے کہ وہ حکمرانوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہیں کہ ہمارے بغیر کام چل نہیں سکتا۔ جرنیل بھی حکمران بن کے بیورو کرسی کے محتاج بن جاتے ہیں۔ بےچارے گیلانی صاحب نے اپنے ”دور حکومت“ میں کئی فیصلے کئے اور پھر بڑے دھڑلے سے واپس لے لئے۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں کرپشن سے نہ روکا جائے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی کھلی اجازت ہونا چاہئے۔ اپنے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو بچانے کیلئے اپنے شہر کے وزیر مذہبی امور و حج حامد سعید کاظمی کو جیل بھجوا دیا۔ پھر یہ ہوا کہ نرگس سیٹھی کو واپس لینا پڑا۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ علامہ اقبال اس شعر کے معانی موجودہ صورتحال میں بدل جائیں گےہزاروں سال ”نرگس“ اپنی بے نوری پہ روتی ہےبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیداایک مسلم لیگی ریٹائرڈ کرنل کے بیٹے مشاہد حسین نے وزیر دفاع کے لئے جو بات کہی ہے وہ بار بار نجانے کس مورچے میں رہ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وزیر دفاع کو یہ پتہ ہی نہیں چلنے دیا جاتا کہ اس کا کام کیا ہے۔ مشاہد نے کہا ہے کہ وزیر دفاع کا کام عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان ایک پُل کا ہوتا ہے۔ اس سے مجھے ایک بات یاد آ گئی ہے جو مشاہد حسین کی نذر کی جاتی ہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ پُل پر سے چیونٹی اور ہاتھی ایک ساتھ گزر رہے تھے اور پُل بُری طرح ہل رہا تھا۔ یہ پُل تو اچھی طرح ہل رہا ہوتا ہے جب کوئی مکھی بھی پُل کے اوپر اڑ رہی ہوتی ہے۔ چیونٹی نے ہاتھی سے رومانٹک ہوتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ وے ہاتھیا۔ جب تو اور میں مل کر پُل پر گزرتے ہیں تو نجانے پُل ہلتا کیوں ہے۔ اب سیاستدان اور جرنیل دونوں مل کر اس پر غور کریں۔ مشاہد نے یہ بھی کہا کہ وزیر دفاع فوج اور حکومت کے درمیان بفر کا کام کرتا ہے۔ اس سے پھر مجھے ایک بات یاد آ گئی ہے۔ وہ بھی مشاہد حسین کی خدمت میں عرض کئے دیتا ہوں۔ جن دنوں سکھوں کی خالصتان تحریک بہت زوروں پر تھی اور حریت پسندی کی ایک نئی داستان مکمل ہونے والی تھی۔ خالصتان کی ریاست بن جاتی تو کشمیر خود بخود آزاد ہو جاتا۔ یہ جنرل ضیاءالحق کی بھی معرکہ آرائی تھی۔ انہیں وقت سے پہلے قتل کروا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ اس وقت کے رحمان ملک اعتزاز احسن نے سکھ حریت پسندوں کی تمام فہرستیں بھارتی حکومت کے حوالے کر دی تھیں۔ یہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں ہوا تھا۔ انہوں نے کبھی اس کی تردید نہ کی تھی۔ مگر اعتزاز احسن مسلسل تردید کئے جا رہے ہیں۔ اس تردید کی خوفزدگی میں تائید صاف نظر آتی ہے۔ رحمان ملک بھی مجاہدین کی فہرستیں بھارت کو پیش کر دیتے مگر بھارت کی مجبوری ہے کہ وہ سارے پاکستان میں رہتے ہیں بھارت کے لئے تو پاکستان کا ہر مسلمان مجاہد ہے۔ امریکہ نے مجاہدین کو دہشت گرد کا نام دے دیا ہے مگر بھارت کا خوف ہے کہ جاتا ہی نہیں۔ پچھلے سال رحمان ملک اور یوسف رضا گیلانی نے بھارت جا کے کرکٹ کے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہارنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اس طرح بھی بھارت کی جان نکل جاتی ہے جب وہ کرکٹ کے میدان میں پاکستان سے ہار جاتا ہے۔ کرکٹ کا میچ دیکھنے جنرل ضیاءالحق بھی گئے تھا۔ تب بھارتی فوجیں پاکستانی سرحدوں پر ڈیرے جما کے بیٹھی تھیں۔ جنرل ضیاء نے راجیو گاندھی سے کہا تھا کہ تم ہم پہ حملہ کرو مگر یاد رکھو۔ ہمارے پاس وہ چیز (ایٹم بم) بھی ہے۔ راجیو کا رنگ فق ہو گیا اور دوسرے دن بھارتی فوجیں واپس چلی گئیں۔ وہ کرکٹ میچ بھی ہم ہار گئے تھے مگر یہ شکست فاتحانہ بن گئی تھی۔ اسے کرکٹ ڈپلومیسی کہا گا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ اب بھی ہمارے حکمران کرکٹ میچ دیکھنے گئے تھے۔ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ کوڑا کرکٹ ڈپلومیسی ہے۔ اُس زمانے میں سکھوں سے پوچھا گیا کہ تمہاری خالصتان ریاست کا مقصد کیا ہو گا۔ کسی نے کہا کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بفر سٹیٹ ہو گی۔ سکھوں کی لطیفہ گوئی کی عادت بڑی منہ زور ہے۔ وہ اپنے بارے میں بھی لطیفہ سُن کر سب سے اونچی آواز میں ہنستے ہیں۔ ایک سکھ مسکرایا اور کہا کہ جناب یہ بفر سٹیٹ نہیں ہو گی، ڈفر سٹیٹ ہو گی۔ چودھری پرویز الٰہی سے کہنا پڑے گا کہ وہ مشاہد حسین کو وزیر دفاع بنوائیں مگر اس سے پہلے انہیں وہ پُل بھی بنوانا پڑے گا جو فوج اور حکومت کے درمیان بفر کا کام دے سکے۔