افغانستان میں امن کے لئے پاکستانی فوج کی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی آئی: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی ڈاٹ کام) حالیہ ہفتوں میں پاکستانی فوج کی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ ایک عشرے تک طالبان کو افغانستان میں بغاوت جاری رکھنے کے لئے محفوظ ٹھکانے اور آزادی فراہم کرنے کے بعد اب وہ طالبان، افغان حکومت اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کرانے کے لئے سرگرم ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان کی پالیسی میں یہ تبدیلی برقرار رہے تو اس سے امن کے عمل میں کئی نئے راستے کھل سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے باعث طالبان کے ساتھ جنگ بندی، علاقے میں وسیع تر امن اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے جنگ بندی اور امن مذاکرات سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کی کمزور حکومت اور فوج کو پنپنے کا موقع مل جائے گا۔ کئی سینئر افغان حکام نے جنرل کیانی کی یہ کہہ کر تعریف کی ہے کہ انہوں نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مفاہمت کرانے کے لئے واضح اقدامات کیئے ہیں۔ اس کے برعکس صدر حامد کرزئی اور دوسرے حکام برسوں تک پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ صدر کرزئی کے ایک سینئر مشیر نے کہا ہم اب سمجھتے ہیں پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے اور جنرل کیانی افغانستان میں امن لانے کے لئے کلی طور پر مخلص ہیں۔ جنرل کیانی اب افغان حکام پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے روڈ میپ کے مطابق 2014ءمیں نیٹو فوج کے انخلا کا انتظار کرنے کی بجائے اگلے برس کے اوائل تک ہی معاہدہ کر لیں تاہم جمعرات کے دن ایک افغان خودکش حملہ آور کے ہاتھوں افغان انٹیلیجنس کے سربراہ کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد اس امن عمل کو دھچکا لگے گا کیونکہ اس کے بدلے میں جوابی حملہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی سمت میں تبدیلی کی وجہ امنِ عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور معاشی مسائل ہیں۔ پاکستان کو پاکستانی طالبان کی طرف سے دہشت گردی اور کراچی میں بڑھتے ہوئے نسلی اور فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا ہے۔ فوج پاکستانی طالبان سے لڑ کر بھاری جانی نقصان اٹھا چکی ہے اور اب وہ مزید جنگوں میں نہیں الجھنا چاہتی۔ جنرل کیانی کو امید ہے افغانستان میں مفاہمت سے پاکستانی طالبان پر مثبت پڑے گا اور وہ اپنے جواز اور نئی بھرتیوں سے محروم ہو جائیں گے۔