تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو رہا: وزیر مملکت برائے تجارت‘ رحمن ملک کی قومی اسمبلی سے غیرحاضری پر برہمی
اسلام آباد( آن لائن +اے پی پی) قومی اسمبلی میں ملک میں امن وامان کی موجودہ صورتحال پر بحث کے دوران وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی عدم موجودگی پر ارکان اسمبلی نے اظہار برہمی کیا وزیر مملکت برائے تجارت عباس خان آفریدی نے کہا موجودہ حکومت چار سال کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 120 فیصد اضافہ کر چکی اس میں مزید اضافہ کی کوئی تجویز فی الحال زیر غور نہیں۔ شگفتہ صادق کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں کو برابر کرنے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی ہے جو ایک فارمولے طے کرے گی۔ یاسمین رحمن کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا گریڈ 20 کے ملازمین کے مقابلے میں نچلے گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں نسبتاً زیادہ اضافہ کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے تجاویز آئیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔ شیریں ارشد کے سوال کے جواب میں عباس آفریدی نے کہا کم وسائل کی وجہ سے حکومت کیلئے ریٹائرڈ ملازمین کی کم از کم پنشن 20 ہزار روپے ماہوار مقرر کرنا ممکن نہیں۔ملک میں امن وامان کی موجودہ صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے شیخ آفتاب نے ایوان میں رحمن ملک کی عدم موجودگی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا وزیر داخلہ نے امن وامان کے حوالے سے ایوان میں جو بھی بیان دیئے ہیں اس میں صداقت نہیں ہوتی امن وامان کی بدترین صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان سے بھاگ رہے ہیں ہمیں اس وقت سے بچنا چاہیے جب لوگ ایک دوسرے سے روٹی چھیننے کے درپے ہیں اے این پی کے عثمان ایڈووکیٹ نے کہا پورے ملک میں اس وقت امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب ہے سندھ ،خیبر پی کے اور سب سے بدترین صورتحال بلوچستان میں ہے جہاں یہ لوگ اپنے شہروں کو چھوڑ کر پڑوسی صوبوں میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوچکے ہیں بلوچستان میں ریاست کیلئے انتہائی خطرناک حالات سامنے آنیوالے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا خضدار کے ڈپٹی کمشنر کو جن لوگوں نے حبس بے جا میں رکھا ان کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے مسلم لیگ (ن) کے نصیر احمد بھٹہ نے کہا ملک میں امن وامان غائب ہوچکا ہے ۔ اجلاس منگل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے والد فضل کریم کنڈی سمیت دیگر وفات پانے والے ارکان پارلیمنٹ کیلئے فاتحہ خوانی کرائی گئی ۔ اجلاس میں سزائے موت ختم کئے جانے یا نہ کئے جانے کے معاملے پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے حمایت اور اختلاف میں غیر رسمی بحث ہوئی وقفہ سوالات میں پارلیمانی سیکرٹری برائے وزارت داخلہ احمد مجتبیٰ کھرل نے بتایا گزشتہ چار برس میں ملک میں کسی بھی سزائے موت کے مجرم کو سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا صرف پاک فوج کے ایک سپاہی کو اپنے افسر پر حملے کی پاداش میں ضروری کارروائی کے بعد سزائے موت دی گئی تاہم اس وقت ملک میں 65افراد سزائے موت پر عملدرآمد کے منتظر ہیں انہوں نے کہا سزائے موت ختم کئے جانے یا نہ کئے جانے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرسکتی ہے ان کے اس بیان پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے سزائے موت کے ختم کرنے یا نہ کرنے کے حق اور مخالف میں چھوٹی چھوٹی تقاریر کرنی شروع کردیں اس طرح اس معاملے پر اجلاس میں غیررسمی بحث چھڑ گئی مسلم لیگ (ن) کی طاہرہ اورنگزیب نے سزائے موت کو بیمانہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کردی تاہم مسلم لیگ (ن) کے ہی عابد شیر علی نے سزائے موت کو اسلامی قوانین کے عین مطابق قرار دیا پیپلز پارٹی کے اعجاز احمد ورک نے کہا سزائے موت کو ختم کیا تو اس کی مخالفت کرینگے فاٹا سے رکن قومی اسمبلی عبدالمالک وزیر،تہمینہ دولتانہ اور ظفر بیگ بھٹانی نے بھی سزائے موت کے حق میں دلائل دیئے ۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا ملک کے ہوائی اڈوں پر ایڈز کی سکریننگ کیلئے تاحال کوئی انتظام موجود نہیں وفاقی وزیر میر ہزار خان بجارانی نے کہا پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 97 ہزار ہے جو آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔قومی اسمبلی میں جووینائل جسٹس سسٹم بل 2012ءمتعارف کرا دیا گیا۔ پیر کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری داخلہ کیپٹن (ر) رائے غلام مجتبیٰ کھرل نے جو وینائل جسٹس سسٹم بل 2012ءپیش کیا اور قومی اسمبلی نے بحری حفاظتی ایجنسی ترمیمی بل 2012ءکی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔قومی اسمبلی کو بتایا گیا سی این جی کی قیمتوں کے تعین کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تاہم گیس پریشر ہونے کے باوجود جو سی این جی سٹیشن عوام کو سی این جی فراہم کرنے سے گریزاں ہیں، اوگرا ایسے سٹیشنوں کے کوائف جمع کر رہا ہے ۔