• news

ججز تقرر کیس: صدر اور وزیراعظم کو پارلیمانی کمیٹی سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دینے کا حق نہیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ججز تقرری سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ ججز تقرری آئینی و قانونی معاملہ ہے صدر یا وزیراعظم اس پر اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال نہیں کر سکتے جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جوڈیشل کمشن اور پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد وزیراعظم اسے صرف صدر کو بھجوانے کا پابند ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے میں کمشن کی سفارشات کو مسترد کرنے کا اختیار صرف پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہے صدر وزیراعظم کو پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دینے کا حق نہیں جبکہ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا صدر ہر مرتبہ ججز نامزدگی کے معاملے پر صدارتی ریفرنس اسی طرح بھیجا کریں گے؟ صدارتی وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ نہیں عدالت ایک بار جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل درآمد کیا جاتا رہے گا۔ وسیم سجاد کے صدارتی ریفرنس کے 5 سوالات پر دلائل مکمل ہو گئے۔ عدالت نے انہیں جلد دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی۔ جمعرات کو پانچ رکنی لارجر بنچ نے جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس طارق پرویز، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید شیخ پر مشتمل بنچ نے مقدمہ کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام وکلاء کو دلائل کیلئے ایک ایک گھنٹہ دیا جائے تاکہ دلائل جلد مکمل ہوں صدارتی ریفرنس میں صدر کے وکیل وسیم سجاد نے عدالت سے استدعا کی کہ بھٹو ریفرنس کی طرح موجودہ ریفرنس میں عدالتی معاونت کیلئے چاروں صوبائی ایڈووکیٹس جنرل، سپریم کورٹ اور پاکستان بار کونسل کے صدور کو بھی طلب کیا جائے جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے انکی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ اتنا گھمبیر نہیں ضرورت پڑی تو ایڈووکیٹس جنرل اور سینئر وکلاء کو عدالتی معاون مقرر کریں گے ابھی صرف صدر نے قانونی معاملات پر رائے مانگی ہے۔ صدارتی وکیل وسیم سجاد نے ججز سنیارٹی پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہی وقت میں تقرری پانے والے وکیل کی سنیارٹی ان کی عمر سے لگائی جائے گی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس ریاض احمد اور جسٹس انور کاسی نے بطور جج حلف اٹھایا جسٹس ریاض احمد کی عمر زیادہ ہے اسی لئے وہ سینئر اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ منصب کے اہل ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس رحمت حسین جعفری وہ خود اور جسٹس اطہر سعیدنے ایک دن مگر کم عمر ہونے کے باوجود انہیں اور جسٹس گلزار احمد کو سینئر وکیل قرار دیا گیا۔ وسیم سجاد نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سینئر ججز کو پہلی بار آئینی کردار ملا سینئر جج کو اس کے حق سے محروم رکھنا عدلیہ کی آزادی کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ ججز تقرری کے معاملے کو شفاف رکھنے کیلئے جوڈیشل اور پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کی تشکیل آئین میں موجود ہے۔ مگر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی تعیناتی کیلئے منعقدہ جوڈیشل کمشن کی تشکیل آئینی نہیں تھی صدارتی کردار کی وضاحت کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا جسٹس ریاض احمد کی غیر حاضری میں جسٹس انور کانسی ان کی جگہ جوڈیشل کمشن کے اجلاس میں شرکت کرنے کے مجاز نہیں تھے آئین میں قائم مقام جج کا ذکر ہے قائم مقام سینئر جج کا نہیں اگر سینئر جج کمشن کے اجلاس میں شرکت نہ کرے تو کمشن کے اجلاس میں انکی جگہ کوئی اور جج کو نہیں بلایا جا سکتا ایک اجنبی کی شرکت سے جوڈیشل کمشن کی حیثیت قانونی نہیں رہی۔ حلف کے تحت صدر آئین کا اس طرح محافظ ہے جس طرح اعلی عدلیہ کے ججز، کمشن کی سفارشات غیر آئینی ہوں توصدر انہیں منظور کرکے حلف سے انحراف کیسے کر سکتا ہے کمشن نے سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کیا جو آئین کے آرٹیکل 175 اے سے انحراف ہے۔ صدر معاملے میں وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہے، جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کمشن کے اجلاسوں کے وقت جسٹس ریاض احمد جج کا فریضہ ادا کرنے ملک سے باہر گئے ہوئے تھے ان کی غیرموجودگی میں جسٹس انور کانسی سینئر ترین جج تھے قانون کے مطابق سینئر جج اجلاس میں شرکت کر سکتا تھا کمشن کی سفارشات میں آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوئی آرٹیکل 175 اے کی شق 13 کے تحت وزیراعظم ان سفارشات کو صدر تک پہنچانے کا پابند ہے۔ اسے سفارشات کے غلط یا درست ہونے کا اختیار نہیں، جسٹس خلجی نے کہا کہ آئین میں صدر اور وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ظاہر نہیں وسیم سجاد نے کہا کہ پرانا طریقہ یہ تھا کہ صدر چیف جسٹس کے مشورے سے ججز کا تقرر کرتا تھا لیکن اس طریقہ کو ختم کرکے جوڈیشل کمشن ا ور پارلیمانی کمیٹی قائم کردی گئی۔ الجہاد ٹرسٹ کیس میں قراردیا گیا ہے کہ اگرکوئی کنسلٹی آئینی لحاظ سے درست نہ ہو تو خود تقرری درست نہیں ہو گی، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کنسلٹی کا معاملہ 18 ترمیم کے بعد ختم ہو گیا ہے۔ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ اگر رکن غیر مجاز تھا پھر اس کا ووٹ فیصلے پر نظرانداز بھی نہیں ہوتا پھر کیوں کمشن کا فیصلہ مسترد کر دیا جائے؟ وسیم سجاد نے کہا کہ غیر مجاز کی شرکت سے اجلاس کمشن کا اجلاس نہیں کہلائے گا پارلیمانی ممبر کی جگہ کوئی دوسرا فرد اسمبلی اجلاس میں شرکت کا مجاز نہیں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ رضا ربانی ایوان میں کہہ چکے ہیں کہ اب صدر وزیراعظم کا اختیار پارلیمانی کمیٹی استعمال کرے گی پارلیمنٹ نے دانستہ ججز تقرری میں صدر کو اختیار نہیں دیا قانون کی منظوری کیلئے صدر کو پارلیمنٹ کا بل پاس کرنے کا اختیار دیا ججز تقرری میں ایسا کوئی اختیار ہوتا تو اس کا ذکر آرٹیکل 175 اے میں ہوتا عدالت نے وسیم سجاد کو دلائل آج 11 بجے تک مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دئیے صدر صرف رائے مانگ سکتا ہے سپریم کورٹ رائے دے سکتی ہے۔ حکومتی وکیل وسیم سجاد نے پوچھا صدر رائے مانگ سکتا ہے یا مشورہ؟ وضاحت ہونی چاہئے۔ وسیم سجادنے مطالبہ کیا کہ چاروں اے ڈی جی، ایڈووکیٹ جنرل اور سپریم کورٹ بار کے صدر کو بلایا جائے تاہم عدالت نے استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ ججز تقرر کا معاملہ آئین نے حل کر دیا پھر ریفرنس کی کیا ضرورت تھی۔ وسیم سجاد نے کہا کہ ابہام محسوس کیا اس لئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن