افغانستان میں امن کے لئے حقانی نیٹ ورک سے بھی بات ہو سکتی ہے: امریکی سفیر
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ نیٹ نیوز/ بی بی سی) پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے حقانی نیٹ ورک سے بھی بات ہو سکتی ہے۔ افغان مفاہمتی پالیسی کا اطلاق حقانی نیٹ ورک سمیت تمام گروپوں پر ہوتا ہے۔ امریکہ کاگھوڑا جمہوریت ہے، پاکستان میں شفاف انتخابات کے حق میں ہےں، پاکستان امریکہ تعلقات مثبت سمت میں گامزن ہونے کے بارے میں وزیرخارجہ حنا ربانی کھرکے بیان سے متفق ہوں، امریکہ نے پاکستان کو انتہا پسندی کے حوالے سے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے، شمالی وزیرستان میں آپریشن پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، امریکہ اس میں مداخلت نہیں کرے گا، افغانستان کی حکومت نے مفاہمت کی پالیسی کے جو اصول وضع کئے ہیں ان کا اطلاق حقانی نیٹ ورک سمیت تمام شدت پسند گروہوں پر ہوتا ہے،کسی بھی تنظیم کا کوئی بھی رکن اگر افغانستان کی مفاہمتی پالیسی کی اصولوں پر عمل کرے گا اس سے بات ہو سکتی ہے ، مولوی فضل اللہ کے بارے میں مستند معلومات ملیں تو امریکہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کےلئے تیار ہوگا۔ بی بی سی سے انٹرویو میں رچرڈ اولسن نے کہاکہ افغان مفاہمتی پالیسی پر بات کرنا یا اسے طے کرنا ان کا نہیں بلکہ افغانستان کی حکومت کا کام ہے مگر اس کا اطلاق سب گروہوں پر ہے۔افغان مفاہمتی پالیسی کے تین اصولوں تشدد کے خاتمے، بین الاقوامی تشدد سے قطع تعلق اور افغانستان کے آئین کے احترام کو جو بھی اپنانے کے تیار ہوگا اسے مفاہمت کے دائرہ کار میں لایا جائےگا۔ انہوں نے ساتھ ہی حقانی نیٹ ورک کے بارے میں امریکہ کی تشویش کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو انتہا پسندی اور تشدد کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، کچھ گروہوں جن میں حقانی نیٹ ورک شامل ہے ان کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے، اب اس بارے میں مناسب اقدامات کرنا پاکستان کی حکومت کا کام ہے۔ ماضی میں ہمارے تعلقات میں کچھ مشکل مرحلے آئے مگر میں پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے اس بیان سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارے تعلقات اب مثبت سمت میں گامزن ہیں۔ پاکستان کی جانب سے رسد کا راستہ دوبارہ کھول دینا سب سے اہم پیش رفت ہے اس حوالے سے تعلقات میں شدید تناﺅ تھا۔ اس سوال پر کہ ڈرون حملے پاکستان امریکہ تعلقات کا سب سے تلخ پہلو ہیں؟ اولسن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پُرتشدد انتہا پسندی کے مشترکہ خطرے سے پاکستانی اور امریکی عوام دونوں متاثر ہو رہے ہیں اور یہ یقینا پوری دنیا کے لئے بھی چیلنج ہے، امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا طالبان کے ساتھ یک طرف خفیہ مذاکرات اور دوسری طرف ان پر پاکستان اور افغانستان میں حملے کرنا دانشمندانہ پالیسی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ مفاہمت کی پالیسی افغانستان کی ہے جس پر پاکستان کی حمایت کرنے کی پالیسی کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ نہیں سمجھتا کہ طالبان کے ساتھ ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف ان کے ساتھ لڑائی میں کوئی اختلافی بات ہے۔ جو بات واضح ہے وہ یہ کہ ریاست کے خلاف جنگ میں ملوث کسی بھی تنظیم کا کوئی بھی رکن اگر افغانستان کی مفاہمتی پالیسی کے اصولوں پر عمل کرے گا اس سے بات ہو سکتی ہے۔ اس سوال پر کہ کیا امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن چاہتا ہے امریکی سفیر نے اسے پاکستان کا اندرونی سکیورٹی کا معاملہ قرار دیا۔ امریکہ کے پاکستان کو کئی معاملات میں بائی پاس کرنے کی پالیسی پر رچرڈ اولسن نے کہا کہ پاکستان نیٹو کا رکن نہ ہونے کے باوجود امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور دونوں کے تعلقات کی تاریخ پینسٹھ سال پر محیط ہے۔ امریکہ پاکستان کی حکومت پر اعتماد کرتا ہے، میرے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ پاکستان کی حکومت کو اُسامہ بن لادن کی ملک میں موجودگی کاعلم تھا، ہم تعلقات کی بہتری کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ اولسن نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا امریکہ کی طرح پاکستان کو بھی پرتشدد انتہا پسندی کے چیلنج کا سامنا ہے جس کے علاوہ پاکستان کو اندرونی چیلینجز بھی لاحق ہیں جن سے نمٹنا پاکستانی حکومت اور عوام کا کام ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو اس حوالے سے کیا گریڈ دیتا ہے، میں یا باہر کا کوئی بھی آدمی ایسا نہیں کر سکتا۔ رچرڈ اولسن کے مطابق پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ اس جنگ میں پچھلے دس سال میں تقریباً چالیس سے پچاس ہزار پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ انفراسٹرکچر اور ترقیاتی کاموں پر بھی منفی اثر پڑا،جس کا اعتراف کرنا اہم ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی ہمارا مشترکہ ایجنڈا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کا مستقبل روشن اور تابناک ہو اور ساتھ ہی ایک دوسرے کی عزت کرتے رہیں۔ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں کسی سیاسی گھوڑے پر شرط لگانے کے سوال پر امریکی سفیر نے شگفتہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا گھوڑا جمہوریت ہے ہم صاف اور شفاف انتخابات کے حق میں ہیں جس کے نتیجے میں عوام کی منتخب کی گئی ایک سویلین حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار کی منتقلی ہو۔