چودھری شُجاعت حسین کا ”شگُوفہ“
”رونقِ سیاست ِپاکستان“۔ اور مسلم لیگ ق کے صدر، چودھری شجاعت حسین نے ،ایک پرائیویٹ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے، بہت دلچسپ باتیں کی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ۔ ”ہمارا بھی مطالبہ ہے کہ ،عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں اور عام انتخابات ملتوی ہونے کا امکان ہے بھی نہیں ، لیکن اگر پارلیمنٹ میںموجود تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں تو، عام انتخابات ایک سال کے لئے ملتوی ہو سکتے ہیں اور میرے خیال میں ، پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں، انتخابات کے التوا پر، متفق ہو سکتی ہیں“۔ چودھری صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ۔۔” اگرچہ انتخابات کے اِلتوا سے، سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ق کو ہوگا“۔
چودھری شجاعت نے، اپنے سابق قائدمیاں نواز شریف کے بارے میں بھی، مثبت روّیہ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا۔ ”میاں نواز شریف مُحبِّ وطن ہیں، اگر انہیں کُرسی اور مُلک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو،وہ مُلک کا انتخاب کریں گے“۔سوال یہ ہے کہ جب عام انتخابات ملتوی ہونے سے، سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ق کو ہوگا تو، چودھری شجاعت، گھاٹے کاسوداکیوں کرنا چاہتے ہیں؟۔ سیاست میں، خاص طور پر، کچھ دو اور کچھ لو کے کاروبارِ سیاست میں تو، ایسا نہیں ہوتا۔ محبت کے کاروبار میں بھی نہیں۔ داغ دہلوی نے کہا تھا۔۔۔۔
” متاعِ حُسن کی،کب تک رہے گی، گرم بازاری
کمی پر بیچ ڈالا، جِس نے گھاٹا، مال میں دیکھا“
بلخ بُخارے کا شہزادہ عِزّت بیگ المعروف مہینوال جب گجرات کی سوہنی کمہارن پر عاشق ہُوا تو وہ ،سوہنی کے والد سے مہنگے داموں برتن خرید کر، سستے داموں بیچ ڈالتا تھا۔ عِشق کے کاروبار میں، بہت کم لوگ، اِس طرح کا روّیہ اختیار کرتے ہیں، سیاست میں تو بالکل نہیں، جنرل ضیاءالحق ، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف، جنرل پرویز مشرف اور اب صدر زرداری کے ساتھ کاروبارِ سیاست میں شریک، چودھری برادران، ہمیشہ فائدے میں رہے ہیں اور اب اگر عام انتخابات کے التوا کی تجویز پیش کی جارہی ہے تو اس کے پیچھے چودھری صاحب کا طویل تجربہ ہے۔ کوئی نہ کوئی تو فائدے کی بات ہو گی ۔شاعر نوازش علی کے بقول۔۔۔
”تجربہ مُدتّوں کا، اپنا ہے
ہم نے سب، گرم و سرد دیکھا ہے“
چودھری شجاعت حسین گرم و سرد چشیدہ اور مردِباراں دیدہ ہیں۔انہوں نے میاں نواز شریف کو بھی مُحبّ ِ وطن قرار دیتے ہوئے امتحان میں ڈال دیا، انہیں بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ چودھری صاحب کو اندازہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی پوزیشن ،دوسری جماعتوں کی نسبت بہتر جا رہی ہے اور ممکن ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں وہ، اکثریت بھی حاصل کرلے، اور ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مِل کر مرکز میں حکومت بھی بنالے ۔پھر میاں نواز شریف ،وزیرِ اعظم کی کُرسی پر ہوں گے۔ اب بقول چودھری صاحب، نواز شریف کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کُرسی چاہتے ہیں یا مُلک (کا مفاد) اگر نواز شریف خود کو،چودھری صاحب کے فارمولے کے مطابق،مُحبّ ِوطن ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ،ظاہر ہے کہ مُلک کے مفاد کو ترجیح دیں گے، لیکن اگر مقررہ وقت پر انتخابات ہوجائیں توہمارے ملک کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟۔ کون سی قیامت آجائے گی؟
حُب اُلوطنی کا تقاضا تو یہی ہے کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں اور قوم پانچ سال بعد اپنے ووٹ کا حق استعمال کرکے تبدیلی لائے۔ ساڑھے تین کروڑ جعلی ووٹروں کی منتخب کردہ قومی اسمبلی اور اُس کے حوالے سے ، حکومت پر مسلّط لوگوں کو مزید ایک سال کیوں برداشت کِیا جائے؟ لوگ تو اِس سے جلد سے جلد جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں میں جتنی لُوٹ کھسوٹ ہوئی ہے، اُس سے پہلے ساٹھ سالوں میں بھی نہیں ہوئی۔ یہ دور پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ کا بدترین دور ہے۔ ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے اور مُرغانِ چمن(خدانخواستہ)انجامِ گلستان سے دہشت زدہ ہیں۔
اگر موجودہ پارلیمنٹ، عام انتخابات ملتوی کرنے کی جُرات کرے گی، جس کا کوئی امکان نہیں تو، وہ سیاسی جماعتیں ، جو پارلیمنٹ سے باہر ہیں اور بھوکے ننگے عوام ، جِن کے لئے تن و رُوح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے، کیا چُپ چاپ، یہ فیصلہ قبول کرکے اورمطمئن ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے؟ چودھری شجاعت صاحب۔ ”سیانے بیانے“ ہو کر بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ عوام ”نکّونکّ“ ہو چکے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، جہالت اور بیماری تو شاید اُن کے مقّدر میں پہلے سے لِکھ دی گئی تھی، لیکن اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، حرام خوری کے مُجرموں،زمینوں جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں ، ڈاکوﺅں، چوروں اور دہشت گردوں سے عدم تحفظ سے عوام کو کون نجات حاصل کرنے کے لئے، فی الحال تو انتخابات ہی ایک سیدھا سادہ ذریعہ ہے، ورنہ کئی مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے ساتھ جو کچھ ہُوا ہے، اُس کی خبر شاید ہمارے حُکمرانوں تک نہیں پہنچی۔ وہ شاید خیالی جنت میں رہ کر ، مزید ارضی جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔
چودھری برادران، جِس قیادت کا پلّو پکڑتے ہیں،اُس کا آخر دم تک ساتھ دیتے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے وردی سمیت صدر منتخب کروانے کا مسئلہ پیش ہوا تو ”پڑھا لِکھا پنجاب“ کے وزیرِ اعلیٰ چودھری پرویز الہی نے چھاتی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا۔۔ ” ہم جنرل پرویز مشرف کو دس بار وردی سمیت صدرِ پاکستان منتخب کروائیں گے“۔ 10بار کا مطلب ہوا 50سال تک۔ اس بات کا ، جنرل پرویز مشرف کو بھی عِلم تھا کہ وہ 50سال تک چیف آف آرمی سٹاف کی وردی میں نہیں رہ سکتے، لیکن وہ فلمی اداکار”موگمبُو“ کی طرح بہت خوش ہوئے تھے۔
عام انتخابات ایک سال تک ملتوی کرانے کی تجویز بھی، فرمائشی معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، 21ستمبر 1988ءکو پیدا ہوئے تھے۔ وہ 21ستمبر 2013ءکو 25سال کے ہوجائیں گے اور ان کی مزید سیاسی نشوونما ہو چکی ہو گی ۔ اگر انتخابات، ایک سال کے لئے ملتوی ہو جاتے ہیں تو بلاول صاحب ، قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہونے کے اہل ہو سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتیں اگر قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لیں تو وزیرِ اعظم بھی۔ ہے ناں بگلا پکڑنے کی ترکیب۔ ”مو گیمبو“ بھی خوش ہو جائے گا۔
چودھری شجاعت نے اپنے انٹرویو میں روایتی شگُفتگی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دِیا۔ انہوںنے کہا ۔”مسلم لیگ ق کا انتخابی نشان ”سائیکل“ پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان ”تِیر“ سے بہتر ہے۔ سائیکل پر دو یا زیادہ افراد، بیٹھ سکتے ہیں“۔ چودھری صاحب نے "Trinity" کی اصطلاح استعمال نہیں کی،یعنی۔ چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الہی اور چودھری مونس الہی۔ بہر حال چودھری صاحب نے انتخابات ملتوی کرانے کے لئے جو شگُوفہ چھوڑا ہے، اُس پر بہادر شاہ ظفر کی رُوح کو بہت صدمہ ہُوا ہوگا۔ جنہوں نے کہا تھا۔۔
”دِل خوں ہُوئے ،اِک دم میں، ہزاروں کے ، سِتم گر
کیا تُو نے ، شگُوفہ یہ نیا ، آن کے چھوڑا