ایبٹ آباد کمشن نے رپورٹ کو حتمی شکل دیدی‘ دو ہفتوں میں وزیراعظم کو پیش کئے جانیکا امکان
ایبٹ آباد + اسلام آباد (آن لائن+ ثناءنیوز) ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دیدی ہے اور اسے دو ہفتوں کے دوران وزیراعظم کو پیش کردیا جائیگا۔ 700 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں سامنے آنیوالے حقائق امریکی موقف سے متضاد ہیں۔ رپورٹ میں 300 عینی شاہدین سے انٹرویو اور 3000 دستاویزات کے جائزے کے بعد 200 سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق قانون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن کے خاندان‘ پڑوسیوں اور ان سرکاری اہلکاروں کے بیانات قلمبند کئے گئے ہیں جو امریکی حملے کے بعد اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈ میں داخل ہوئے۔ بعض تفصیلات ذاتی نوعیت کی ہیںکہ اسامہ 2005ءسے مبینہ کمپاﺅنڈ میں مقیم تھا‘ کبھی باہر نہیں گیا۔رپورٹ میں امریکی سی آئی اے کی معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی سے متعلق کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی سی آئی اے حکام کیساتھ پشاور میں واقع ایک این جی او کے دفتر میںملا اور ایک دو ملاقاتوں کے بعد وہ ایبٹ آباد میں ہیپاٹائٹس کے انسداد کیلئے مہم چلانے پر راضی ہوگیا۔ مہم تین بار چلائی گئی مگر وہ ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بعدازاں لیڈی ہیلتھ ورکر اس میں کامیاب ہوئیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے پاس ایک ڈیوائس تھی جس کے ذریعے اسلام آباد سے خاتون سی آئی اے اہلکار اس سے رابطہ کرتی تھی اور سی آئی اے نے ڈیوائس کے انفراریڈ کے ذریعے بھی اسامہ سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ سی آئی اے نے ڈاکٹر آفریدی کو اس مہم کیلئے دس ہزار ڈالر دئیے اور ڈی این اے کی تصدیق کے بعد ڈاکٹر آفریدی کو پاکستان سے امریکہ منتقل ہونےکی پیشکش کی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے نے امریکی سی آئی اے کو اسامہ کے چار فون نمبر اور دو ایسے خط فراہم کئے تھے جن میں اسامہ کی ایبٹ آباد میں رہائش سے متعلقہ تفصیلات تھیں۔