خواتین کی صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی 2012ءمیں بھی خواب رہی
لاہور (رپورٹ: رفیعہ ناہید اکرام/ لیڈی رپورٹر) پنجاب حکومت کی طرف سے ویمن ایمپاورمنٹ اور عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوو¿ںکے باوجود سال 2012ءکے دوران صوبائی دارالحکومت میں قائم سرکاری ہسپتالوں میں خواتین کے علاج معالجے کیلئے سہولیات کی فراہمی خواب بنی رہی۔ ہرروز دوردراز کے اضلاع سے ہزاروں خواتین موذی اور جان لیوا بیماریوں، زچگی، گھریلو تشدد، حادثات، بریسٹ کینسر اور صحت کے دیگر مسائل کے باعث لاہورکے سرکاری ہسپتالوں میں پہنچتی رہیں مگر سارا سال سہولتوں کی عدم دستیابی، وی آئی پی کلچر، ڈیوٹی پر موجود نرسوں، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے ناروا رویوں، ضروریات کے مقابلے میں بیڈز، ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی شدید قلت اور خالی آسامیوں کے باعث شدید مشکلات کا شکار رہیں۔ سارا سال شدید موسموں میں مردوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہو کر چیک اپ کا انتظار کرنا، ای سی جی کروانا اور زچگی کے وقت ڈاکٹروں نرسوں کی عدم توجہی، ویل چیئر اور سٹریچر کی عدم دستیابی ان کیلئے کسی مصیبت سے کم نہیں رہا۔ ایمرجنسی میں پہنچنے والی جاں بلب خواتین مریضوں کو پہنچتے ہی علاج شروع ہونے کی بجائے انہیں ہسپتال کے قواعد و ضوابط کے مطابق پرچی و دیگر مراحل سے گزرنا پڑتا رہا۔ مفت علاج کی سہولت کے باوجود علاج تاخیر سے شروع ہونے کے باعث کئی خواتین مریضائیں جان کی بازی ہارتی رہیں جبکہ ینگ ڈاکٹروںکی ہڑتالوں کے باعث آپریشن ملتوی ہونے سے خواتین کے معاشی و صحت کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہا۔ ملک میں بریسٹ کینسر کی شکار خواتین کی تعداد میںاضافے کے باوجود مریض خواتین کیلئے سپیشل وارڈ موجود نہ ہونے سے شدید مشکلات کا سامنا رہا جبکہ تیزاب پھینکنے، گھریلو تشدد، چولہا پھٹنے یا گھر میں آتشزدگی کی صورت میں جل جانے والی خواتین کیلئے قائم پنجاب کے برن یونٹس (میوہ سپتال اور نشتر ہسپتال) میں بیڈز کی تعدادانتہائی کم ہونے کے باعث سارا سال سینکڑوںخواتین علاج معالجے کی ناکافی سہولیات کے باعث موت کا شکار ہوتی رہیں۔ ہسپتالوںکی ایمرجنسی میں الگ وارڈ ہونے کے باوجود کوئی پرائیویسی نظر نہیں آتی، مریض خواتین کے پردے کیلئے موجود پرانی اور ناکارہ سکرینز پردے کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہیں جبکہ ایمرجنسی انتظامیہ کی طرف سے مریض خواتین کودیگر شعبوں میں بھیجنے کے باعث خواتین مریضائیں ایمرجنسی اور دیگر شعبوں کے درمیان شٹل کاک بنی رہیں۔علاج معالجے کی مناسب سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث لاتعداد خواتین پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج پر مجبور ہوتی رہیں۔ دوسری جانب بخشیش نہ ملنے کی صورت میں پیرامیڈیکل سٹاف کا مریض خواتین کے لواحقین سے سوتیلی ماں جیسا سلوک اورکینٹین پر ناقص اشیائے خوردنی کی انتہائی مہنگے داموں دستیابی کے باعث لواحقین دوہرے عذاب میں مبتلا رہے۔