بلوچستان، کراچی۔۔۔ اپنا ہے!
پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات جسٹس(ر) احمد سعیداعوان نے روزنامہ نوائے وقت فیصل آباد بیورو کے زیراہتمام قائداعظم ڈے کے حوالے سے منعقدہ مجلس مذاکرہ میں خطاب کرتے ہوئے بڑی تہلکہ آمیز گفتگو کی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ شہرقائد جو قتل و غارت، تخریب کاری، دہشت گردی اور بدامنی کا گڑھ بنا ہوا ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ اور لسانی گروہوں کے فسادات میں روزانہ بے گناہ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اس سارے خونیں کھیل میں ایک لسانی جماعت کو امریکہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ پینٹاگون اور سی آئی اے کراچی کو ہانگ کانگ کی طرز پر فری ٹریڈ سٹی بنانے کی سازشوں میں مشغول ہیں۔ احمد سعیداعوان نے مزید انکشاف کیا کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں بطور وزیراطلاعات 1988ءمیں عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف بلوچ ارکان قومی اسمبلی سے حمایت حاصل کرنے کے لئے بلوچستان بھیجا تو بلوچیوں نے کہا کہ خبیث وزیر آ گیا ہے ۔ مخدوم امین فہیم سے رابطہ کریں تو وہ کراچی ہوتے ہیں، جہانگیر بدر سے رابطہ کیا جائے تو وہ لاہور بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیا ہم اپنے کام کروانے کے لئے لاہور اور کراچی جایا کریں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچ ارکان اسمبلی نے کہا کہ جب مسقط کی چالیس ہزارکی آبادی ہے بروانائی کی تھوڑی سی ہے اور وہ آزاد ملک ہیں، اپنے کام خود ہی کر لیتے ہیں تو ہم اپنے کاموں کے لئے کیوں اسلام آباد، لاہور یاکراچی کا رخ کریں۔ آج حالات یہ ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون اسلحہ اور فنڈنگ کر رہا ہے۔ اپنے دامن میں معدنیات سمیٹے صوبے بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی بدترین سازشیں ہو رہی ہیں۔
پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میںلاکھوں قربانیاں دے کر کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میںکوئی بلوچی سندھی پنجابی اور پختون نہیں ہے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے کا مکمل احترام ان سب پر واجب ہے۔ اقلیتوں کو بھی اس عظیم سرزمین پاکستان میں مکمل آزادی حاصل ہو گی مگر افسوس! قیام پاکستان کے بعد اس ملک پر وڈیرے، جاگیردار اور وہ لوگ مسلط ہو گئے جن کا تحریک پاکستان کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ لوگ اس ملک کے چوہدری بن گئے جنہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قائداعظم جیسا عظیم لیڈر کبھی پاکستان کو دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس عظیم قائد کے شہر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ قائد کے شہر میں ہر روز خون کی ہولی کھیلنا ایک ایسا رجحان بن چکا ہے جس نے اس ملک کی معیشت کو مفلوج بنا رکھا ہے اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے علاوہ اندرون ملک بیٹھے سرمایہ دار بھی کراچی میں سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہیں اور وہ خوف محسوس کرتے ہیں۔ کراچی کے حالات روز بروز ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں اور کراچی کے تمام تر حالات کو کنٹرول کرنے کا ذمہ ایک ایسی لسانی جماعت نے اپنے سر لے رکھا ہے۔ کراچی کے حالات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک طالبان کا جتنا مرضی پنڈورا کھول لیا جائے اس شہر میں اصل خرابی کے محرکات وہی ہیں جس کی طرف احمد سعیداعوان نے اشارہ کیا ہے۔ ماضی میں بھی بہت ساری قوتیں اور سیاستدان ایسے ہی حالات کی ایسے ہی انداز میں عکاسی کر چکے ہیں مگر ان کو مختلف طریقوں اور انداز سے چپ کرا دیا گیا۔ سندھ کے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے لسانی گروپ کے کردار کو صحیح معنوں میں بے نقاب کیا تھا مگر بعد ازاں ان کو بھی خاموش کروادیا گیا۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف ،صدر مملکت آصف علی زرداری کو ملک میں مفاہمت کی سیاست کا بانی قرار دے رہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری نے اس کو تمام تر حالات و واقعات کے باوجود جو اپنا اتحادی بنا رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی اگر ملک اور قوم سے مخلص ہے تو ذاتی اقتدار کی ہوس اور جستجو سے بالاتر ہو کر ایسے لوگوں سے اپنا اتحاد ختم کیوں نہیں کر تی۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف کراچی میں تحریک طالبان کے موجود ہونے کا ڈرامہواویلا کیا جاتاہے اور دوسری طرف جب فوجی آپریشن کے مطالبات سامنے آتے ہیں تو ایسے کسی آپریشن کے مطالبے اور تجویز کوسازش کا نام دے کر اس کی بھرپور اندازمیں مخالفت شروع کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ وہ کردار نہیں جو بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کرتے ہوئے بھارتی آج تک ہمارے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ افسوس صدافسوس کہ ہمارے عظیم ملک میں سب سے بڑے شہر جو آبادی رقبے اور معاشی و اقتصادی لحاظ سے بھی بڑا شہر ہے اور شہرقائد ہونے کی وجہ سے بھی سب سے بڑا شہر ہے اس شہر عظیم میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے ایک لسانی جماعت ایسی تباہی و بربادی کو مضبوط تر کرتی جا رہی ہے کہ کل کلاں وہ خدانخواستہ اس شہر کو ملک سے بھی جدا کرنے پر کوئی مشکل آڑے نہ آنے دیں اور کراچی حیدر آباد پر مشتمل نیا صوبہ بنا کر اس ضمن میں ہو سکتا ہے علیحدگی کی تحریک بھی بین الاقوامی اشاروں پر چلائی جائے۔ کراچی کی طرح بلوچستان کے حالات بھی سلگ رہے ہیں بلکہ بلوچستان کی تصویر زیادہ بھیانک ہے۔ مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان میں احساس محرومی خوفناک کن ہے۔ ہمیں فوری طور پر چاہیے کہ بلوچستان کے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کریں۔ بلوچ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ بلوچستان کے اندر بلوچوں پر مبنی ہی بیوروکریسی کو مضبوط کیا جائے ان کا وفاق سے رشتہ مضبوط کرنے کے لئے وفاقی سٹیبلشمنٹ کے نام سے ایک ایسا ونگ بلوچستان میں قائم کیا جائے جہاں وفاق سے متعلقہ تمام امور مقامی سطح پر ہی حل کئے جا سکیں۔ بلوچستان ہمارے ملک کا مستقبل ہے۔ بلوچ عوام نے قیام پاکستان کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں اس عوام کو ہوس اقتدار کے لئے قربان نہ کیا جائے۔ خدارا حکمران کراچی اور بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے لئے عملی طور پر میدان میں اتریں۔ تمام سیاسی جماعتیں ہوش کے ناخن لیں اور سیاست کی بجائے بلوچستان اور کراچی پر توجہ دی جائے۔یرغمال بنانے والوں سے کراچی کا تسلط چھڑوانا جانا ضروری ہے۔ کراچی میں ووٹرلسٹوں کی تصدیق اس ضمن میں مثبت سنگ میل کا کردار ادا کرے گی جبکہ بلوچستان کے لئے تادم تحریر حکمران اور تمام سیاسی جماعتیں کچھ کرنے سے قاصر ہیں جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہمارے لئے شرم سے کم نہیں۔قائداعظم ڈے پر روح قائد ہم سب سے یہی تقاضا کرتی ہے اور قائد ہمیشہ حکم دیا کرتا ہے کبھی مطالبہ نہیں کرتا۔