دورِ مجدد کی لادینی متشدد تحریکیں
محمد رضا امین
ان تحریکوں کا مختصر جائزہ جنہوں نے دین کے لبادہ لادینیت کو تشدد و دیگر اسباب سے رائج کرنے کی کوشش کی۔
حضرت مجدد نے ان تمام تحریکوں کو بیخ کنی کی جو تنظیم یا شخصیت، فرد، نظریات کی صورت میں تھیں۔
دورِ مجدد میں اسلامی دنیا کے سیاسی حالات مکمل نہیں تو اکبر مستحکم تھے۔ سلطان سلیم منصب خلافت پر متمکن تھا۔ سلطان سلیم کا سلطنت عثمانیہ کا عظیم مستحکم دور تھا۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی استحکام تھا جو اسلامی تہذیب و تمدن، علوم و فنون کا عظیم سرچشمہ تھا۔ اس خطہ نے فقہ حنفی کی تدوین میں بڑا حصہ لیا اور اسی خطہ سے سلسلہ نقشبندیہ کا چشمہ صافی پھوٹا۔
ہندوستان میں ابراہیم لودھی، شیرشاہ سوری کی صورت میں عظیم متصلب فی الاسلام منظم، دستور ساز، مفلح حکمران برسراقتدار رہے جس سے اس خطہ میں استحکام پیدا ہوا اور عظیم اسلامی روایات پروان چڑھیں۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود کچھ ایسی چیزیں اور بھی تھیں جس نے بعد میں لادینیت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ ہندوستان کے کچھ ایسے سیاسی، ثقافتی، تہذیبی، علمی، مذہبی اسباب تھے جس کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کو انتشار پسند دعوتوں، گمراہ کن فرقوں اور طالع آزما مذہبی پیشہ وروں کی آسان چراگاہ بنا دیا تھا۔
ذکری تحریک: ہندوستان میں دو تحریکیں بہت سخت، انتشار انگیز اور اسلام کے لئے انتہائی خطرناک اور باعثِ تخریب تھیں۔ ان میں سے ایک ڈگری عقیدہ اور فرقہ تھا جس کی بنیاد نبوت محمدی کی الف اوّل پر اختتام اور الف ثانی سے ایک نئی نبوت اور ہدایت کے آغاز پر ہے۔ ہر تحریک بلوچستان پھلی پھولی۔ وہ جس شخص کو پیغمبر مانتی ہے ان کے بقول اس کا ظہور 977ءکو اٹک کے مقام پر ہوا۔ اس فرقہ کی کتابوں ”معراج نامہ قلمی‘ شنائے مہدی، سفرنامہ مہدی، ذکر الٰہی“ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک مستقل محکمہ بھی وضع کیا تھا۔ نماز پڑھنے والوں کی تکفیر و تضحیک کرتے تھے۔ یہ روزہ، حج، زکوٰة کے بھی مفکر تھے۔ حج بیت اللہ کی بجائے حج کوہ مراد کو ضروری قرار دیتے تھے۔ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ذکری فرقہ اسلام کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے کہ میر نصیر خان اعظم نے ان کے ساتھ جہاد کیا اور ان کی بیخ کنی کی۔
تحریک روشنائی: ہندوستان میں دوسرا مشتبہ فرقہ، فرقہ اور شنائیہ تھا۔ اس فرقہ کے معتقدوں، حامیوں اور مخالفین کے بیانات میں تضاد ہے کہ ایک بانی فرقہ کو ”پیر روشن“ کے نام سے یاد کرتا ہے اور دوسرا ”پیر تاریک“ سے اس فرقہ کے بانی بایزید انصاری تھے۔ جالندھر میں پیدا ہوئے ان کا بچپن اور جوانی خاندانی کشمکش، بڑوں کی بے توجہی میں گزرا جس کے سبب سے ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ جوانی میں کئی علاقوں کا سفر کیا۔ اسی دوران ان کی ملاقات سلیمان اسماعیلی سے بھی ہوئی، جوگیوں کی صحبت میں بھی وقت گزرا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مہدویت، الہام ربانی کا بھی دعویٰ کیا جبکہ کابل کے قاضی خاں کے مباحثہ کے دوران اس نے دعویٰ مہدویت کی تردید کی۔ اس نے اپنے افکار سندھیوں، بلوچیوں اور افغان قبائلیوں میں پھیلائے۔ پانی سے غسل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے، اپنے مخالفین کے قتل کو جائز سمجھتے تھے۔
مہدویت : اس عہد کی سب سے زیادہ زلزلہ انگیر تحریک، تحریک مہدویت تھی جس کے بانی سید محمد جونپوری تھے۔ اس خطہ پر اس دور میں کوئی تحریک اتنی اثر انگیز نہیں تھی جتنے اثرات اس تحریک نے مسلم معاشرے پر ڈالے۔ اس کے بانی صاحب تاثیر شخصیت تھی۔ ان کی شخصیت و صحبت، ان کی گفتگو اور بیان سامعین و حاضرین پر جادو کا اثر رکھتا تھا۔ بادشاہ، امرائ، عوام و خواص سب پر بے خودی اور خود فروشی طارق ہو جاتی تھی اور ان کےلئے بڑے سے بڑے منصب کو خیرباد کہنا، ترکِ دنیا دایاں ہاتھ کا کھیل تھا۔ یہ جادو محمود شاہ گجراتی پر بھی ہوا۔ یہی رنگ احمد نگر، احمد آباد، بیدر اور گلبرگر میں بھی دیکھنے میں آیا۔ خلقت نے ان کے دامن کو تھام لیا۔ سندھ میں بھی یہ شور برپا ہوا کہ لوگوں کو تھامنا مشکل ہو گیا۔ قندھار میں بھی ان کے بیان نے قیامت برپا کر دی گویا وہ اپنے افکار و اثر یات میں حسن بن صباح تھا۔
ابتداً تحریک مہدوی کے افکار اتنے سنگین نہ تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میں ایسے اقوال و دعاوی کی بھرمار ہو گئی کہ جن کی تاویل و توجیہہ بڑی مشکل تھی بعد میں آنے والے غالی معتقدوں نے بہت اضافہ کیا اور بانی تحریک کی تدریس و تعظیم میں اتنا غلو کیا کہ ان کو انبیاءکا ہمسر اور بعض سے افضل و برتر بنا دیا۔
تحریک مہدویت نے اتنا زور پکڑا کہ اس کے ہاتھ اقتدار تک بھی پہنچے اور دکن‘ احمد نگر میں سلطنتیں قائم کیں۔ علما دین اور اہل اللہ نے اس کا مقابلہ بھی کیا۔ عظیم محدث علامہ محمد طاہر پُنی بھی ان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
نقطوی تحریک : دور مجدد کی سب سے زیادہ انتشار انگیز اسلامی روایات کو مسخ کرنے والی تحریک‘ تحریک نقطوی ہے جو کہ بعد میں ”اکبر دین الٰہی“ کی صورت میں ڈھلی بقول و سکندر منشی کے ”یہ فرقہ حکمائ“ کے مذہب کے مطابق عالم کو قدیم مانتا ہے۔ اجسام انسانی کے دوبارہ زندے ہونے اور حشر و نشر کا مطلق عقیدہ نہیں رکھتا‘ اعمال کے حسن و قبح کی جزا و سزا کو دنیا کی راحت و ذلت کی شکل میں اسی کو بہشت و دوزخ سمجھتا ہے۔
شاہ نواز خان ان کے متعلق لکھتا ہے کہ ”علم نقطہ‘ الحاد زندقہ‘ ابامت اور وسیع المشربی کا نام ہے۔ حکماءکی طرح قدم عالم کے قائل اور حشر و قیامت کے منکر ہیں۔ یہ نظریہ ارتقاءکے بھی قائل تھے۔“
شاہد ڈارون نے پھر نظریہ ارتقاءنقطوی تحریک سے مستعار لیا ہو۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جمادات و نباتات ترقی کرتے کرتے انسان کے درجہ تک پہنچ گئے۔ نباتات کے اگنے میں قدرت خداوندی کا کوئی دخل نہیں وہ محض کواکب و عناصر کی ترکیب کا عمل ہے۔ اس فرقہ کے پیروکار نماز‘ حج اور قربانی کا مذاق اڑاتے تھے۔ ماہ رمضان کا نام انہوں نے ”ماہ گرسنگی اور تشنگی“ رکھا تھا۔ طہارت و غسل کے مسائل کی تضحیک کرتے‘ اس فرقہ کا بانی محمود‘ پسخوانی بتایا جاتا ہے اس فرقہ نے ہندوستان و ایران کے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ مذہب اسلام منسوخ ہو چکا ہے اس لئے محمود کا لایا دین قبول کئے بغیر چارہ نہیں۔ دین اسلام کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے اب نئے دین کی ضرورت ہے۔ شاہ عباس صفوی نے ایران میں نقطویوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس نے بڑے پیمانے پر قتل غارت کی۔ جس کی وجہ بہت سے نقطوی جان بچا کر ہندوستان چلے آئے۔ اس گروہ کے سرخیل ”حیاتی کاشی“ اور ”شریف آملی“ بھی ہندوستان بھاگ آئے۔ شریف آملی نے ہندوستان آ کر اکبر کا قرب حاصل کیا‘ اکبر اس کے ساتھ پیر جیسا سلوک کرتا تھا۔ بعض محقین کا خیال ہے کہ ”شریف آملی“ ”محمود“ کی تحریروں سے ثبوت پیش کر کے اکبر کو دین الٰہی کے اختراع کی ترغیب دی۔ اکبر نے اسے ہزاری منصب دے کر اپنے مقربین میں شامل کرلیا۔ بنگالہ میں اس کو دین الٰہی کے مریدوں اور معتقدوں کے سامنے اکبر کی نیابت کرتا تھا۔
معاصر مورخین کے مطابق دین الٰہی کا سرخیل ”ابوالفضل“ بھی نقطوی تحریک سے متاثر تھا۔ شاہ عباس صفوی نے جب نقطوی تحریک کے ذمہ دار میر سید احمد کاشی کو قتل کیا تو اس کے کاغذات کے ذخیرہ سے جن نقطویوں کے خطوط ملے ان میں ابوالفضل کا بھی ایک خط تھا۔
معاصر مورخ سکندر منشی لکھتا ہے کہ ”ہندوستان سے آنے جانے والوں سے معلوم ہوا کہ ابوالفضل پیر شیخ مبارک بھی ہندوستان کے فضلاءمیں سے ہے اور دربار اکبری میں بہت زیادہ تقرب حاصل کر چکا ہے۔ اسی مذہب کا پیروکار ہے۔ اس نے بادشاہ اکبر کو وسیع المشرب بنا کر جادہ شریعت سے منحرف کر دیا ہے۔
اس کا خط جو میر احمد کاشی کے نام لکھا تھا جو میر مذکور کاغذات میں سے دستیاب ہوا ابوالفضل کے نقطوی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
اکبری تحریک (دین الٰہی)
تاریخی شہادتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقطوی تحریک کے داعیوں نے ہندوستان آکر الف ثانی کے نئے دور، نئے دین اور نئے آئین کے لیے کسی طرح ایک تخت اور مسند تیار کررکھی تھی جس پر مسند آراءہونے کےلئے ایک بااختیار و طاقتور موزوں شخصیت درکار تھی اور اس کےلیے ان کی نظر میں اکبر سے زیادہ کوئی اہل نہ تھا۔ ان کے ساتھ ساتھ دیگر لادینی قوتیں بھی اکبر کے گرد جمع ہوگئیں۔ جنہوں نے اسلام اور دیگر مذاہب، فرقوں کے درمیان مذہبی دنگل قائم کئے اور اس کو تحقیقی و علمی مباحث کا نام دیا۔ ان مباحث نے اکبر کے افکار و نظریات مختلط کردیا۔ اس کی شاہد تزک جہانگیری ہے ”والد ماجد اکثر ہر دین و مذہب کے دانشوروں سے ملاقات کرتے تھے۔ خصوصاً ہندوستانی فاضلوں اور پنڈتوں سے، امی ہونے کے باوجود کثرت مجالس کے سبب علماءو فضلاءکے ساتھ گفتگو میں کسی کو ان کے امی و ناخواندہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ نظم و نثر کی باریکیوں کو اس طرح سمجھتے تھے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں“۔
آتش پرستی: ”جہاں پناہ (اکبر بادشاہ) اپنی روشن ضمیری سے روشنی کو بے حد عزیز رکھتے ہیں اور اس کی تعظیم و تکریم کو خدا پرستی اور ستائش الٰہی خیال فرماتے ہیں۔ نادان کو رباطن اس کو خدافراموشی و آتش پرستی کہتے ہیں۔ آفتاب کے غروب ہونے کے بعد خدمت گزار، بارہ کافوری شمعیں روشن کرتے ہیں اور ہر چراغ چاندی اور سونے کی لگن میں رکھ کر بادشاہ کے حضور میں لاتے ہیں اور ان میں سے ایک شیریں زبان، خوش گلو خادم شمع کو ہاتھ میں لئے مختلف دلکش سمروں کے ساتھ خدا کی جمبد کے اشعار گاتا ہے اور آخر میں خود جہاں پناہ کی ازدیاد عمرودولت کی دعا کرتا ہے“۔ (آئین اکبری)
آفتاب پرستی: دو آشیانہ منزل نام کی عمارت میں ایزد پرستی ہوتی تھی۔ دور یہیں سے آفتاب کی تعظیم کی ابتداءہوتی تھی۔ فرماتے ہیں کہ آفتاب کی سلاطین کے حال پر ایک خاص عنایت ہے۔
گنگا جل: بادشاہ سفر و حضر ہر وقت گنگا کا پانی نوش فرماتے ہیں معتمد ملازمین کا ایک گروہ دریا کے کنارے مامور ہے۔ جو سربمہر کوزوں میں پانی بھر کر لاتا ہے۔ جب جہاں پناہ آگرہ، فتح پور میں قیام فرماتے ہیں تو قصبہ ”سوروں“ سے پانی لایا جاتا تھا۔ اس زمانہ میں جبکہ شاہی خیمہ لاہور میں نصب ہے۔ ہر دوار کے عمدہ پانی سے آبدار خانہ سیراب ہے۔ باورچی خانہ میں جمنا اور چناب کا پانی آیا آب باراں صرف ہوتا ہے لیکن ان میں تھوڑا پانی گنگا کا لایا جاتا ہے۔
اسلامی روایات کا خاتمہ: بندگان عقیدت مند سجدہ تعظیمی کرتے اور سجدہ ایزدی شمار کرتے۔ ابوالفضل لکھتا ہے کہ ”عرصہ دراز سے قبلہ عالم کا ارادہ تھا کہ ملک ہندوستان میں جدید ماموسال جاری فرما کر دقتیں رفع کریں، سہولتیں بہم پہنچائیں۔ جہاں پناہ سن ہجری کو بوجہ اس کے نقائص کے پسند نہیں فرماتے لیکن ناعاقبت اندیش و کم فہم افراد کی کثرت کی وجہ سے جوتاریخ وسن کے اجراءکو بھی ایک دینی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ حضرت کی خاطر پرور طبیعت نے گوارہ نہ کیا کہ اس گروہ کی دل شکنی فرمائیں اور یہی وجہ ہی تھی کہ قبلہ عالم ابتداءمیں اپنے خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکے“۔
لیکن یہ سب کچھ افکار مجدد سے غارت ہوگیا اور دوبارہ اسلام کے نور کا اُجالا ہوگیا۔