• news

پیر ِطریقت علامہ حاجی محمد یوسف علی نگینہ

علامہ منیر احمد یوسفی
حضرت اِنسان کو معرض وجود میں آتے ہی آزمائشوں کا سامنا ہوا۔خیر و شرکی قوتیںآ منے سامنے رہیں۔شیطان، جو حضرت آدم علیہ الصلوٰة و السلام کی تخلیق ہو تے ہی حسد کا شکار ہوگےااوراِس حسد کی بنا پر تکبر اور نا فرمانی کا مجسمہ بن گےا۔ شیطان حضرت آدم کے مقام و عظمت کا اقرار نہ کرنے کی وجہ سے اَبدی طور پر مردود ، لعنتی، کا فر اور راندہ¿ درگاہِ خداوندی ٹھہرا۔اِس ذلت اور رسوا ئی نے اُسے باﺅ لا کر دےا اور قسم کھا کر کہنے لگااے اللہ ربُّ العزّت میں تیری مخلوق کو دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے سے آکر گمراہ کروں گا۔جو اباً رَبِّ ذوالجلال والاکرام نے فرمایا کہ جن کو تو گمراہ کرے گااورجوتیری پیروی کریں گے میں اُنہیں تیرے ساتھ ہی جہنم میں ڈالوں گا۔ ابلیس نے اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں دُعا کی کہ مجھے اُس دن تک مہلت دے جس دن لوگ دوبارہ اُٹھائے جائیں گے تو رَبِّ کائنا ت نے قےامت تک کی مہلت دینے کا وعدہ فرما لیا۔اب کیا ہے ؟ بس اُس دِن سے شیطان آزادانہ طور پر مصرو ف ہے لیکن وہ اِس بات کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکاکہ میں ہر شخص کو گمراہ کر و ں گامگر اے اللہ! ”تیرے (پیارے ) مخلص بندوں پر میرا زور نہیں چلے گا۔“
جب اِس دُنیا میں نسل اِنسانی کا سلسلہ وسیع ترہونا شروع ہو ا توشیطان نے اپنے پروگرام کے مطابق لوگوں کو را ہِ حق سے ہٹانے کے لئے اِنتقام کی بھڑکتی آگ میں ڈالنا شروع کر دیا۔ اُدھر اُس کے اِنتقام کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ جل مجدہُ الکریم نے انبیاءکرام علیہم السّلام کو مبعو ث فرما نا شروع کر دیا۔ جو لوگوں کی بھلائی کے لئے شب و روزکوششیں کرتے رہے اورسب سے آخر میں سیّد الانبیائ، حبیب کبرےا ،شفیع المذنبین، شافع یوم النشور، ختم المرسلین، رحمة اللعالمین، احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفےٰ کو مبعوث فرما یا۔ آپ نے شیطان کے ناپاک گناہوں کی پھیلا ئی ہوئی سےاہ چادر کے تار و پود کو بکھیر دیا‘اِنسانوں کو صرا طِ مستقیم سے آگاہ فرما یااور سوا لاکھ سے زیادہ لوگوں کوہدایت کے ستارے یعنی صحابہ کرام ہونے کا اعزاز عطا فرمایا۔ چونکہ آپ نے دنیا سے پردہ فرما جانا تھا اِس لئے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے علماءربانی کی بشارت دی اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دی کہ” علماءکرام ، انبیاءکرام علیہم السّلام کے وارث ہیں“۔
اِنہی وارثانِ انبیاءکرام علیہم السلام میں ایک عظیم شخصیت کا نام تاریخِ اِسلام میں جگمگا رہا ہے جو بر صغیر پاک و ہند میں عشقِ مصطفی سے منورپیکر ہیں۔ جنہیں اولیاءکرام اور علماءکرام میں اِنتہائی عزت و تو قیر اور بزرگی کا مقام حا صل ہے۔یہ عظیم بزرگ شخصیت سےّدی مرشدی پیر طریقت رہبر شریعت شہنشاہِ طریقت، پیکر صبر و رضا، نیرّ اَو±جِ شر افت، مفسرِ قرآن، امینِ علم لَدُنی، قطبِ جلی حضرت قبلہ علامہ مو لانا حاجی محمد ےو سف علی نگینہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں۔جو بچپن سے ہی خو فِ خدا جل جلا لہ اور عشقِ مصطفی سے سجے ہوئے تھے ۔نبی کریم رﺅف ورحیم کے متبع تھے ۔
آپ نہ صرف عالم و عابد تھے بلکہ عارف باﷲ ولی اللہ بھی تھے، اولیاءاللہ کی زینت تھے۔ ادیبوں میں عظیم شاعر تھے ،خطیبوں میں بے مثال واعظ تھے۔ وہ نہ صرف خطیب و شاعر تھے بلکہ کامل پیرومرشد اور شیخِ طریقت بھی تھے۔آپ جس طرح عبادت میں ہوشیار تھے اِسی طرح معاملا ت میں بھی بیدار تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے اِنسان عبادات کے مقابلے میں معاملات سے زیادہ پہچانا جاتاہے۔حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں اُسوئہ ِ رسول کریم رو¿ف ورحیم سے بدرجہ¿ اتم فیضےاب تھے۔ بلاامتیاز امیر و غریب ہر ایک کے لئے راحتِ جان تھے۔ہر ملنے والا ےہی پیغامِ محبت لے کر جاتاتھا کہ حضرت باباجی نگینہ صاحب مجھ پر بڑے شفیق اور مہربان ہیں۔ لوگ آپ کے پاس رنج و الم لے کر آتے تھے اور قلبی سکون اور ذہنی راحت لے کر جاتے تھے ۔
خود نمائی اور نمائش کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ دوسرو ں کو اپنے پر ترجیح دیتے تھے۔تواضع کا اَندازہ اِس بات سے لگاےاجا سکتا ہے کہ جب کبھی کسی بزرگ ےا عالم دین کے بارے میں بتایاجاتا کہ ےہ بہت بڑے بزرگ یا عالم ہیں تو آپ اُن کوخوب اعزاز دیتے آپ کو کسی کے ساتھ ذاتی محبت یا اپنے بیگانے سبھی آپ کی عظمت اور بزرگی سے آگاہ اور قائل تھے۔آپ ہمیشہ اِنسان دوستی ، خیر خواہی، ہمدردی ، غمگساری اور اِنسانی بھلائی کے جذبات سے سرشار رہتے تھے۔اِعزّو اقربائ، اہل علاقہ، معتقدین، متوسلین اور مریدین کی دنیاو دین کے سنوارنے کی فکر میں گم رہتے تھے۔دینی، اِسلامی ‘اَخلاقی اور روحانی تعلیم و تربیت میں شب و روز مصروف رہتے تھے۔آپ نے اپنی دنیا کو بھی دین بنا لیا ہوا تھا اور یہی جذبہ پیش نظر تھاکہ ہر آنے والے سے(مرےد ہوتا ےا غیر مرید)کی اِسی نہج پرتربیت کی جائے۔
آپ نے ہزاروں گمراہوںکو عشقِ الٰہی جل وعلا اور محبت ِ مصطفی کا سبق سکھایا ۔ بڑے بڑے گمراہو ں کو جب یہ دولت ملی تو اُن کی زندگیاں سنور گئیںاور دوسروں کے لئے روشن مثا لیں بن گئے ۔
آپ کی زندگی میں ایسے کئی لوگوں کی مثالیں موجود ہیں کہ جو مرید کسی اور بزرگ کے ہوتے تھے لیکن روحانی فیض آپ سے حاصل کرتے تھے۔ آپ کشادہ دلی سے روحانی اور علمی اَمانت حقدا ر کو دینے میں کوئی دقیقہ فر و گزاشت نہیں فرماتے تھے۔روحانی طور پر محبوبِ خدا نبی کریم رو¿ف ورحیم کی ذات میں فنا تھے۔کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہ لیتے بلکہ دشمن کے لئے بھی دُعا فرماتے تھے۔آپ فرماےا کرتے تھے بد دُعا کرناکہ ےا اللہ فلاں شخص کو تباہ کر دے، برباد کر دے ےا فلاں شخص کا بیڑاغرق کر دے ، بہت آسان ہے لیکن اِس میں وہ کما ل نہیں جو دُعائے خیر دینے میںکمال ہے۔آپ ہمیشہ سب کے لئے دُعائے خیر و فلاح ہی فرمایا کرتے تھے۔
لوگوں کے ساتھ لین دین اور معاملات میں بڑے اُصول پسندتھے۔کبھی کسی سے قرض حسنہ لیتے تو اُس کو کہنا نہیں پڑتا تھاکہ میری رقم واپس کےجئے بلکہ آپ اَز خود ہی قرض خواہ کا قرض حسبِ وعدہ واپس فرما دیتے ۔ہمسایوںسے اچھا سلوک روا رکھتے ۔ کسی کی حق تلفی نہ ہونے دیتے ۔حقوق کی ادائیگی کا بڑا لحاظ رکھتے مگر اپنے حقوق کے معاملہ میں صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ فرماتے ۔آپ کے علاقہ پیلے گوجراں شریف چک نمبر ۱۷۶گ۔ ب، تحصیل سمندری ، ضلع فیصل آباد میں کسی نے مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر شر پھیلانے کی کوشش کی تو آپ نے ہمیشہ علمی سطح پر جواب دیا۔تشدد اور دہشت کے خلاف تھے۔مخالف کو قرآنِ مجیدو اَحادیث ِمبارکہ کے مستند حوالہ جات اور اَخلاق سے قائل فرماتے تھے۔ بڑے بڑے جید علماءاور مناظرحضرات مختلف کتابوں سے حوالہ جات لینے کے لئے آپ کے پا س آتے۔کسی مسئلہ کے حل کے لئے جو شخص بھی آتا کبھی بھی کوئی مایوس نہیں لوٹتا تھا۔
عشقِ مصطفی اور رزقِ حلال کو عبادت کی روح جانتے اور اِسی کی تعلیم دیتے تھے۔جب کبھی کوئی مالی پریشانیوں کا شکار مریض آتا تو اُسے محبت بھرے پیارے اور سادہ اَندازسے تعلیم فرماتے کہ ”©آپ سیّدھے ہو جائیں آپ کے سب کام سیدھے ہو جائیںگئے“۔ مطلب و مقصد یہ ہو تا تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اوررسول کریم کی فرمانبرداری کرو، نماز پنجگانہ کو بجا لاﺅ، کسی کا حق نہ مارو، حرام سے بچو، ماں باپ سے حسن سلوک کرو،حق ہمسائیگی کا خیال رکھو،نگاہ میںحیاءرکھو کیونکہ حیاءبھی شعبہ¿ اِیمان ہے، دوست بناﺅ، دشمن نہ بناﺅ، اِنسانی اقدار اور اَخلاقی خوبیوں کو اپناﺅ ۔ آپ شفیق بھی تھے،رفیق بھی۔ہمیشہ سچ بولتے اور سچی بات کی تصدیق کرتے ، نیکی کا حکم فرماتے ا ور برائی سے منع کرتے‘راتوں کو جاگتے اور صبح دولت خانہ کا دروازہ سخاوت کے لئے کھلا رہتا،بہت بڑے عالم، مطالعہ کے شہنشاہ اور بہادر تھے۔اِنتہائی خلیق، پردہ پوش اور عفو و در گزر کرنے والے تھے۔
 آنکھوں سے او جھل ہونے کے بعدآپ کا فیض آج بھی جاری ہے۔ زےارت کے لئے آنے والوں کو نہ صرف ےہ کہ سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے بلکہ دِلی مرادیں بھی پوری ہوتی ہیں۔
 قبلہ حاجی محمد یوسف علی صاحب نگینہ کی زندگی مبارک ایک مکمل کتاب زندگی ہے۔سترسٹھ سالہ زندگی قابلِ تقلید نمونہ ہے جس کی ترتیب کےلئے وقت درکار ہے۔آپ کی شخصیت جامع الصفات تھی آپ شریعت اور طریقت کے زبردست عامل تھے ۔علمی دنیا آپ کی علمیت کو فخر و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
آپکی ساری زندگی عقائدِاِسلامیہ کی ترویج وتبلیغ میں گزری ۔ آپ پوری زندگی ”اُن لوگوں کی راہ جن پر اﷲ( تبارک و تعالیٰ) کے( اَن گنت) اِنعامات ہیں“ کی تعلیم فرماتے رہے ۔ قرآنِ مجیداور احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں معاملات کو سلجھاتے تھے ۔آپ کے سمجھانے کا انداز مشفقانہ اور حکیمانہ ہوتا تھا۔ آپ ”اپنے رب کی راہ کی طرف بلاو¿ ‘ حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اوراُن سے اِس طریقہ پر بحث کروجو سب سے بہتر ہو۔“ کی عملی تفسیر تھے“۔اَیسی خوبصورتی اور سادگی سے وعظ فرماتے کہ کم سے کم علم والا بھی آپ کے وعظ ونصیحت کو سمجھ جاتا ۔مسائل سمجھانے میں اِنتہائی برُدباری اور حلم سے کام لیتے تھے جب کبھی کوئی شخص کج بحثی سے کام لیتا توآپ اَحسن انداز میں گفتگو فرماتے ،
عہد وپیمان کی پاسداری فرماتے تھے۔اولوالالباب میں سے تھے ۔خشیت ِالٰہی ‘اﷲ والوں کاحُسن ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم کا اِرشادِ عظیم ہے: ”اﷲ سے اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔حضرت قبلہ بابا جی نگینہ خلوت و جلوت میں یکساں خشیت ِالہٰی میں رہتے تھے۔”رجوع الی اﷲ“ آپ کے فلسفہ¿ تصوف کی روح تھااوربرادرانِ طریقت کو اِنقطاع کلی عن الخلق اوررجوع الی اﷲ کی تلقین اور تربیت فرماتے تھے ۔نظر کی درستگی اورسیدھائی ‘قلب کی صفائی اور باطن کی روشنی کے لئے ضروری قرار دیتے تھے ۔آپ عالمِ باعمل تھے ۔آپ واعظ ہی نہیں تھے بلکہ ایک مصلح بھی تھے ۔سُنّت ِمبارک کی پابندی اُن کے اَعمال کا حسین لباس تھا۔
کھانا کھلانا خدائی صفت ہے ۔اﷲوالے بھی مخلوق کو کھانا کھلا کرخوش ہوتے ہیں۔اﷲ والوں کے آستانوں پر لنگر جاری رہتے ہیں۔ حضرت قبلہ باباجی نگینہ سرکارصاحب رحمہ اﷲ تعالیٰ کے دَرسے کوئی سائل خالی نہ لوٹتا تھا۔ہر آنے والے مہمان کو کھانا کھلاتے ۔ایک مرتبہ آپ نے ایک مہمان کو کھانے کی دعوت دی تواُس نے عرض کیا‘ حضور ”میں رجیاہو یا واں “(یعنی میں خوب سیر ہوں‘ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے)توآپ نے فرمایا تو پھر یہاں کیا لینے آئے ہو؟ آپ نے فرمایا‘بیٹا اَیسا نہیں کہتے ۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم کو یہ بات بہت پسند ہے کہ مخلوق کو کھانا کھلایا جائے ۔آپ نے اپنے آستانہ ¿عالیہ کی مرکزی مسجد میں اِعلان کروا رکھا تھا کہ جو مسافر ہو وہ میرے گھر سے کھانا کھائے گا ۔ایک دن نماز مغرب کے وقت مسجد میں ایک سائل آیا اور کہنے لگا میں بھوکا ہوں‘ مسافر ہوں‘ کھانا کھانا ہے۔ آپ نے ایک دوست کوفرمایا‘اِسے گھر لے جاو¿اور کھانا کھلادو۔ وہ اُسے آستانہ¿ اَقدس میں لے آیا ۔ جب اُس مسافر نے کھانا کھالیا اور کمرے سے باہر نکلا تو ہو امیں اُڑ گیا۔ وہ دوست جو کھانا کھلانے کے لئے گھر لائے تھے وہ گھبراگئے اور آپ سے آکر عرض کیا حضور! وہ بندہ تو ہوا میں اُڑ گیا ہے ۔تو آپ نے فرمایا:وہ وقت کا اَبدال تھا۔
اندازہ فرمائیں جس عظیم شخصیت کے گھر اَبدال آتے ہیں وہ شخصیت خود روحانیت کی کس منزل پر ہوگی ۔ قطب اور قطب الاقطاب اور وقت کے اولیاءکرام آپ کی زیارت کےلئے آیا کرتے تھے ۔
 حضرت بابا جی نگینہ سرکار صاحب علیہ الرحمہ کے ہاں جب کوئی مہمان آتا تو آپ اُس کا شکریہ ادافرماتے اور فرماتے آپ کی مہربانی کے خود ہی تشریف لے آئے وگرنہ یہ کھانا مجھے آپ کے گھر پہنچانا پڑتا۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی شان میں قرآنِ مجید میں اِرشادِعظیم فرماتا ہے : ”اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اُس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسیر کو۔ اُن سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اﷲ(تبارک وتعالیٰ) کے لئے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ اور شکر گزاری نہیں مانگتے۔“
آپ بروز منگل صبح ۹ بجے ۲۶ دسمبر ۱۹۸۹ئ ۲۶ جمادی الثانی ۱۴۱۰ھ بروز منگل صاحبزادہ بشیر احمد یوسفی صاحب اور دیگر اہل خانہ کی موجودگی میں کلمہ شہادت پڑھتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے عرس مبارک کی تقریبات ہر سال ۲۶دسمبر بمقام پیلے گوجراں شریف تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد میں صبح ۹ بجے سے نمازِ عصر تک برپا رہتی ہےں۔ جس میں علماءکرام دعوت وتبلیغ کے موضوعات پر تعمیری اور فکری اعتقادی گفتگو فرماتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن