عظیم روحانی پیشوا غوث بہاءالدین زکریاؒ ملتانی
سلیم ناز
عظیم روحانی پیشوا برصغیر میں سلسلہ سہروردی کے بانی شیخ الاسلام حضرت غوث بہاءالدین زکریا ملتانیؒ کے 773 واں تین روزہ سالانہ عرس مبارک کی آج اختتامی دعائیہ تقریب جاری ہے۔ یہ عرس ہر سال 5 صفر سے 7 صفر تک منایا جاتا ہے۔ عرس کے پہلے روز سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی اور صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور حاجی احسان الدین قریشی نے مزار کو غسل دے کر تقاریب کا آغاز کیا۔ بعد میںچادر پوشی کی رسم ادا کی گئی اور پاکستان زکریا اکیڈمی اور محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام قومی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس سے جماعت اہلسنت کے سربراہ علامہ سید مظہر سعید کاظمی‘ سجادہ نشین گڑھ شریف خواجہ غلام قطب الدین فریدی‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر پیر خالد سلطان قادری‘ مفتی ہدایت اللہ پسروری‘ علامہ فاورق خان سعیدی‘ ڈاکٹر صدیق خان قادری،شاہ محمود قریشی اور صوبائی وزیر احسان الدین قریشی نے خطاب کیا۔ رات کی نشست میں بعد نماز عشاءمحفل حسن قرا¿ت منعقد ہوئی جس میں ممتاز قاری رفیع الدین سیالوی‘ دیگر مقامی اور مہمان قراءکرام نے شرکت کی۔ تقریبات کے اگلے روز قومی زکریا کانفرنس منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی دربار خواجہ غلام فریدمٹھن کوٹ کے سجادہ نشین خواجہ معین الدین کوریجہ تھے۔ صدارت مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی۔ اسی روز رات کو محفل سماع منعقد ہوئی۔
آج عرس کے آخری روز کی تقریبات میں اہل سنت پاکستان کے مرکزی نائب امیر علامہ پیر اکرم شاہجمالی‘ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سید حامد سعید کاظمی اور دیگر علماءکرام شرکت کر رہے ہیں۔ دربار کے چاروں اطراف سکیورٹی کیمر ے نصب کرنے کے ساتھ ساتھ زائرین کے لئے کافی سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ عرس مبارک کی تقریبات میں مقامی اور گردو نواح کے علاوہ سندھ سے زائرین کافی تعداد شریک ہے۔ جن کے لئے دو خصوصی ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔ حضرت بہاءالدین زکریاکو ملتان کی دھرتی پر روحانی اعتبار سے جو حیثیت حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ عہد قدیم میں یہ شہر سروج دیوتا کی پوجا کا اہم مرکز سمجھا جاتا تھا۔
کفر کے ان اندھیروں کو مٹانے کے لئے حضرت بہاءالدین زکریاؒ نے اسلام کی شمع روشنی کی اور سلسلہ سہروردیہ کے فیوض و برکات کا آغاز کیا۔ ان کا عہد تقریباً ایک صدی پر محیط ہے۔ حضرت غوث بہاءالدین زکریاؒ 27 رمضان المبارک 566ھ کروڑ لعل عیسن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباءاجداد کا تعلق قریش مکہ کے معزز قبیلے سے تھا۔ آپ کے دادا شیخ کمال الدین علی مکہ معظمہ سے خوارزم آئے اور پھر وہاں سے ملتان تشریف لائے۔ ملتان میں انہوں نے اپنے صاحبزادے شیخ وجیہہ الدین محمد غوث کی شادی کوٹ کروڑ میں مولانا حسام الدین ترمذی کی صاحبزادی سے کر دی جس کے بطن سے حضرت بہاءالدین زکریاؒ پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ملتان ہی میں حاصل کی۔ قرآن مجید کی تعلیم سات قرا¿توں میں حاصل کی۔ آپ ابھی 12 سال کے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ خراساں تشریف لے گئے۔ سات برس تک جید علماءو مشائخ سے علوم ظاہر و باطن حاصل کئے۔ پھر بخارا گئے جہاں سے سند فضیلت حاصل کی ۔ خرقہ¿ خلافت پانے کے بعد حضرت بہاءالدین زکریاؒ کو مرشد کی طرف سے ملتان واپس جا کر قیام کا حکم ملا۔ حضرت غوث بہاءالدین زکریاؒ ہندوستان میں رئیس الاولیاءتھے۔ آپ نے لوگوں کو رشد و ہدایت فرمائی اور بھٹکے ہوئے لوگ کفر سے ایمان کی طرف لوٹ آئے۔ آپ نے ملتان میں ایک ایسا علمی‘ دینی اور روحانی مدرسہ قائم کیا جسے برصغیر کی پہلی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت حاصل تھی۔ آپ بہت مالدار اور سخی تھے اس لئے طالب علموں کے تمام اخراجات آپ خود پورے کرتے۔ آپ کی درس گاہ سے ہزاروں طالب علم قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ خطاطی‘ تاریخ نویسی‘ ظروف سازی‘ جلد سازی اور تجارت سمیت مختلف علوم و فنون کے ماہر بنے جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ جاوا سماٹرا‘ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ خراسان اور چین تک اسلام کی روشنی پھیلائی۔ محمد بلخی جیسا خطاط اور اس کے کئی شاگرد ملتان میں موجود تھے۔ حضرت غوثؒ کے زمانے میں خط نستعلیق کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ آپ کی اس درس گاہ میں دو شعبے تھے۔ ایک میں علماءاور دوسرے میں مبلغین کی جماعتوں کی تربیت ہوتی اور انہیں ان ممالک میں بولی جانے والی زبانوں اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں تعلیم دی جاتی تھی۔ ان مبلغین کی روانگی کے وقت انہیں سامان تجارت دیا جاتا تاکہ وہ اپنے روزگار کا خود انتظام کریں۔ اسی طرح مبلغین اور واعظین کے مختلف گروہ سندھ‘ مکران‘ کشمیر‘ دہلی اور افغانستان میں بھی روانہ کئے جاتے تھے۔مدرسے کے فارغ التحصیل علمائ‘ مبلغین اور واعظین دین و دنیا اور ظاہر و باطن کا حسین امتزاج تھے۔ ان علماءاور مبلغین نے جن جن مقامات پر دینی مدارس قائم کئے وہ مثالی روحانی مراکز تھے۔ حضرت غوث بہاءالدین زکریاؒ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بنیاد بنا کر اسلامی تعلیمات کے اجالوں کو پھیلایا ان کی زندگی دین و دنیا اور علم و عمل کا حسین امتزاج تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کی درگاہ اتحاد یکجہتی اور اخوت کا بہت بڑا مرکز ہے۔ جہاں عام دنوں میں بھی زائرین کا اجتماع رہتا ہے۔