قطرے، خطرے اور ڈاکٹر شکیل آفریدی
پولیو کے قطرے پلانے والی بے خبر، بے گناہ عورتوں کو مارنے والے کون ہیں۔ یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ انہیں بھجوانے والے کون ہیں۔ انہیں ہم جانتے ہیں مگر رحمان ملک اور صدر زرداری زیادہ جانتے ہیں۔ جیسے وہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو جانتے ہیں۔ صدر زرداری نے سرکاری سخاوت کا کمال کرتے ہوئے مرنے والیوں کے لواحقین کے لئے پانچ لاکھ کا اعلان کیا ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید کے لواحقین کے لئے نجانے کتنا معاوضہ دیا گیا اور کس کس کو دیا گیا ہے۔ صدر زرداری کو وصیت ملی پھر صدارت ملی۔ رحمان ملک کو وزارت ملی۔ بلاول بھٹو زرداری کو حکمرانی کی دعوت ملی ہے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے، انتقام تو ان سے لیا جا رہا ہے جو واقعی بی بی کے لئے غمزدہ ہیں۔تیرے قاتل زندہ ہیں، بی بی ہم شرمندہ ہیںپیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے انتقام اور انعام میں فرق مٹا دیا ہے۔پاکستان میں موت کتنی سستی ہے۔ زندگی مہنگی ہے۔ مہنگائی نے اسے اور زیادہ مہنگا کر دیا ہے۔ مرنے والوں کے لئے جتنا معاوضہ دیا ہے۔ اتنا زندوں کے لئے بھی کیا ہوتا۔ یہ تاثر یوں بنایا جا رہا ہے کہ مرو گے تو تمہارے گھر والوں کے لئے کچھ کیا جائے گا۔ حکومت کرنے کے لئے مسلم دنیا تیسری دنیا بالخصوص پاکستان کے امریکی تھنک ٹینک کا یہ نیا فارمولہ ہے۔ امریکہ تو خودکش بمبار کے لئے بھی معاوضہ دیتا ہے۔ یہ تو کرائے کے مزدوروں کو خون بہانے سے پہلے ہی معاوضہ دے دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ان کے لواحقین کو ملتا ہے۔ اس کے لئے معاشی طور پر پاکستانیوں کو اتنا غریب اور مجبورکر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے جسم و جاں کے علاوہ اپنا ایمان و یقین بھی بیچ دیتے ہیں۔ یہ کاروبار تو پاکستان میں کب سے امریکہ اور بھارت نے چلا رکھا ہے۔ ایک امریکی کا یہ بیان میڈیا پر آیا تھا کہ پاکستانی اتنے بے غیرت ہیں کہ ایک ڈالر کے لئے اپنی ماں بیچ دیتے ہیں۔ ماں دھرتی جو مادر وطن بھی ہے۔ اسے بھی بیچنے کے لئے پاکستانی حکمران سیاستدان اور افسران کب سے لگے ہوئے ہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ سودا بڑے سستے داموں کر لیا گیا ہے۔قومے فروختند وچہ ارزاں فروختندق لیگ کے جذبے والے نوجوان رہنما وقاص اکرم نے کہا ہے کہ ایک خودکش بمبار کی قیمت 40 ہزار ڈالر ہے۔ وقاص اکرم پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر ہیں تو یہ حکومت کا موقف ہے۔ وقاص کی جرات پر حیرت ہے۔ ڈالر کس ملک کی کرنسی ہے؟ مگر امریکہ حکمرانوں سیاستدانوں اور میڈیا کے لوگوں کو ڈالر کیوں دیتا ہے۔ کیا یہ بھی خودکش بمبار ہیں۔ یہ ریموٹ کنٹرول سے تباہی لاتے ہیں۔ بڑا ریموٹ تو امریکہ کے پاس ہے۔ اس نے اس طرح بڑے بڑے حکمرانوں کو مارا ہے جس میں تھوڑی سی غیرت ایمان حب الوطنی جاگ پڑتی ہے تو پھر اسے ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے غلام حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءالحق، بے نظیر بھٹو کو کیوں مروا دیا گیا اور تفتیش بھی نہیں ہونے دی گئی۔ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ قاتل کون ہے مگر خوف اور لالچ سے ان کے دل بند کر دئیے گئے ہیں۔ اب صدر زرداری نے کیا کریں کہ اگر بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو وہ دبئی سے پاکستان ہی نہیں آ سکتے تھے۔ ایوانِ صدر میں کیسے جاتے اور رحمان ملک وزیراعظم سے بھی بڑے وزیر شذیر کیسے بنتے۔صدر زرداری کراچی میں پولیو کے لئے مرنے والوں کے قاتلوں کے خلاف شدید ایکشن لینے کے لئے بے اختیار وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہدایت کر دی ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ مرنے والوں کے بہت ہمدرد ہیں مگر اس ہمدردی کے نتیجے میں مرنے والے بڑھتے جاتے ہیں اور مارنے والے بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمدردی دونوں کے ساتھ ہے۔ بیچارے قائم علی شاہ کو رحمان ملک نے قائم مقام علی شاہ بنا دیا ہے۔ یہ مسئلہ تو صوبہ خیبر پختونخوا کا ہے تو کراچی میں یہ واردات کیوں ہوئی ہے جن طاقتوں نے وہاں اپنے مطلب کے لئے یہ کیا ہے ان کا وہی مفاد یہاں بھی ہے اور یہاں صدر زرداری اور رحمان ملک بھی موجود ہیں۔امریکہ پولیو مہم کے ذریعے بھی اسلام اور پاکستان کو بدنام اور ناکام کرنا چاہتا ہے۔ پولیو کے قطروں کے حوالے سے تشدد سمجھ میں نہیں آیا یہ مذہبی اور اسلامی معاملہ نہیں ہے۔ پہلے زمانوں میں نہ پولیو تھا اور نہ پولیو سے بچاﺅ کے لئے قطرے تھے۔ قطروں سے خطروں کی گھنٹیاں بھی اب بجائی جا رہی ہیں۔ اب سے چند سال پہلے ان قطروں کے لئے کہیں سے کوئی فتویٰ نہ آیا۔ فتویٰ تو اب بھی نہیں آیا۔ تمام جینوئن علما پولیو کے قطروں کے حق میں بات کر رہے ہیں۔ تو یہ طالبان کا مسئلہ کیسے ہو گیا۔ برادرم نجم سیٹھی نے بات ٹھیک کی ہے مگر اس میں امریکہ کے مفاد کو کیوں شامل کر دیتے ہیں۔ میں مذہبی آدمی نہیں ہوں مگر غیر مذہبی آدمی بھی نہیں ہوں۔ مسلمان ہونا ہماری پہچان ہے۔ عشق محمد ہمارا ایمان ہے۔ یہ دونوں باقی رہنے چاہئیں اور یہ باقی رہیں گے۔ امریکہ اور دنیا کی منفی اور طاغوتی طاقتیں جو بھی کر لیں یہ معاملات اب سر اٹھا رہے ہیں اور صرف پاکستان میں سر اٹھا رہے ہیں۔ ہماری جنگ ہے۔ ہماری جنگ بھارت اور امریکہ کے خلاف ہے۔ یہ وزیرستان میں پہلے بھی پٹھان تھے۔ وہ جنگجو مسلمان تھے۔ انہوں نے سکندر اعظم، برطانیہ، روس اور ہر طاقت کے خلاف جنگ کی۔ جنگ ان کی گھٹی میں ہے۔ امریکہ بھی ان کے حریت پسندی والے جذبے سے نہیں بچ سکے گا۔ بھارت بھی نہیں بچے گا۔ یہ سب کچھ ان کو زیر کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔ انہیں زیر و زبر تو کیا جا سکتا ہے مگر زیر نہیں کیا جا سکتا۔وہ امریکہ کے بعد بھارت کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ یہ اگر امریکہ اور بھارت بھاگ گئے تو بھی انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے یہ صرف مطیع حکمرانوں، منتظر سیاستدانوں اور ”مستقل افسرانوں“ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ان سے بھی نجات ضروری ہے۔یہ تو صدر زرداری نے بھی کہہ دیا ہے پولیو کے حوالے سے حملے ایک سازش ہیں۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ مزید حوصلہ کرکے صدر زرداری یہ بھی بتا دیں کہ یہ سازش کون کر رہا ہے تو ہم ان کے ممنون ہوں گے۔ وہ یہ نام نہیں لے سکتے تو میں ان کی طرف سے اعلان کر دیتا ہوں کہ یہ سازش بھی امریکہ اور بھارت کر رہا ہیں۔ مگر بیچارے صدر زرداری کیا کر سکتے ہیں کہ وہ بھی امریکہ کی مدد سے آئے ہیں۔ پاکستان میں ہر حکمران امریکہ کی مدد سے آتا ہے۔ لوگ عمران خان سے خواہ مخواہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔پولیو کے قطروں کے خلاف بات ڈاکٹر شکیل آفریدی (ایبٹ آباد فیم) سے شروع ہوئی تھی۔ شکیل آفریدی پٹھان ہے۔ پٹھان تو اسفند یار ولی بھی ہیں۔ پٹھان کسی کا ایجنٹ اور جاسوس نہیں ہو سکتا؟ ملالہ یوسف زئی کا والد بھی پٹھان ہے اور وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا دوست ہے۔ ملالہ نے بہت بڑا کام کیا تعلیم کے لئے جرات مندی دکھائی۔ پولیو مہم میں شہید ہونے والی لڑکیوں نے بچوں کی زندگیاں اپاہج ہونے سے بچانے کے لئے خطرے کے باوجود بچوں کو قطرے پلانے کی مہم میں حصہ لیا تو یہ ملالہ یوسف زئی کے کارنامے سے کم معرکہ آرائی نہیں ہے؟ تو پھر انہیں بھی امریکہ کی طرف سے مرنے کے بعد ہی کوئی اعزاز دیا جائے۔ ایوارڈ تو مرنے کے بعد بھی دئیے جاتے ہیں۔ ایوارڈ نہ سہی ریوارڈ ہی دیا جائے۔ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو کے لئے ایک جعلی مہم کے ذریعے اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی جاسوسی کی۔ اس کا کارنامہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کے بہت پہلے مر جانے کے باوجود ایبٹ آباد کے ایک کھلم کھلا گھر سے زندہ برآمد کر لیا اور اسے برآمدے میں مروا دیا۔ اسامہ بھی اندر سے کتنا بے وقوف تھا کہ کسی سیکورٹی کے بغیر ایک عام سے مکان میں رہ رہا تھا۔ حریت پسند اور باوفا افغان طالبان نے اسے امریکہ کے حوالے نہ کیا تھا۔ اپنی حکومت گنوا لی تو یہ حماقت کیوں کی۔ پاکستان میں تو ڈاکٹر عافیہ بیٹی کو خود پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اسامہ کو سمندر میں بہا دینے کا مشورہ بھی اہم ترین جاسوس اور ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے دیا ہو گا کہ پاکستانی ایجنٹ امریکی ریمنڈ ڈیوس سے بھی امریکہ کے لئے اہم اور قیمتی ہے۔ اس نے وہ کام کیا جو ریمنڈ ڈیوس بھی نہ کر پایا تھا۔ اس نے دن دیہاڑے دو آدمیوں کو قتل کیا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسامہ کو قتل کروایا جو زندہ بھی نہیں تھا۔ امریکہ ایک دن ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی چھڑا کے لے جائے گا۔ اسفند یار ولی اور صدر زرداری مل کر اسے پروٹوکول کے ساتھ رخصت کریں گے۔ ریمنڈ ڈیوس کے لئے بھی وفاقی اور صوبائی حکومت نے تعاون کیا تھا مگر بے گناہ اور مظلوم و معصوم ڈاکٹر عافیہ کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں کہ امریکہ جو چاہے ہماری بیٹی کے ساتھ کرے۔