• news

طاہر القادری ‘ دفاع پاکستان کونسل اور نیا نظام


اللہ کا شکر ہے کہ ریاست بچانے کیلئے طاہر القادری صاحب میدان میں آ پہنچے ہیں اور وہ سیاست کو قربان کر کے ریاست کو بچانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اپنے انقلابی طبیعت والے مولانا طاہر القادری صاحب کا ماضی بظاہر کوئی اتنا تابناک نظر نہیں آتا، ایک معمولی سی مسجد کے امام میاں شریف کے کندھوں پر بیٹھ کر اتفاق مسجد پہنچے۔ اتفاق مسجد میں انہوں نے اپنی جادوئی شخصیت اور خطاب کے ذریعے میاں برادران کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور انکی آنکھ کا تارا بن گئے۔ انہوں نے ایک عرصہ میاں برادران کی معیت میں گزارا۔ انکے شب و روز میاں برادران کی مدح سرائی میں گزرے۔ یہاں تک کے حج اور عمرے بھی میاں برادران کے ہمراہ گئے ‘تاہم یہاں سے مولانا کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ آتا ہے اور انہوں نے میاں برادران سے احسان فراموشی کرتے ہوئے انکے خلاف محاذ بنا لیا۔ مولانا کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کے قابل ہے۔ قوم کو بہت سے خواب سنانے کے بعد انہوں نے پاکستان اور یورپ میں ایک بڑا حلقہ اثر اپنا گرویدہ بنا لیا جہاں سے انہیں بے تحاشہ فنڈز ملے۔ مولانا نے یہاں سے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کیا۔ وہ این اے 127 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اپنے تمام تر اثر و رسوخ اور سفارشوں کے باوجود وفاقی وزیر نہ بن سکے غالباً یہ انکی زندگی میں آنے والی ایک بڑی مایوسی تھی، مایوسی کے انہی بادلوں میں مولانا طاہر القادری نے اہلسنت کے بریلوی سیکشن میں خاصی پذیرائی حاصل کی۔ انہوں نے بہت سے کاروباری تعلیمی ادارے بنائے، منفعت بخش تنظیمیں قائم کیں اور ایک چھوٹی سی مالی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسری جانب انہوں نے کارکنوں کے اجتماع میں سیاست سے توبہ کی، سیاست چھوڑ دی، یہاں تک کہ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استفعیٰ دیدیا۔
اپنے متنارعہ خوابوں کے بعد متنازعہ بیانات کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان سے باہر یورپ امریکہ‘ کینیڈا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اب اچانک انہوں نے پاکستان آنے کا اعلان کیا اور آنے سے قبل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اپنی تشہیری مہم پر اب تک کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ کر دئیے ہیں۔ دیکھیں انکی دولت کا سمندر عوام کو بھی اکٹھا کر پاتا ہے یا نہیں۔ ریاست کو بچانے سے پہلے اگر وہ چند سوالوں کا جواب دے دیں تو بہتر ہو گا۔ اب جبکہ وہ سیاست چھوڑ چکے ہیں تو اس میں آئے بغیر ریاست کو کیسے بچایا جا سکتا ہے اور بچانے کیلئے سیاست میں آتے ہیں تو اس توبہ کا کیا بنے گا جو وہ اپنے کارکنوں کے سامنے کر چکے ہیں۔ اسی طرح میرا چیئرمین نیب سمیت تمام حکومتی ذمہ داروں سے سوال ہے کہ وہ مولانا کی جانب سے تشہیری مہم میں دولت کو پانی کی طرح بہانے کا نوٹس کیوں نہیں لے رہے۔ کیا مولانا طاہر القادری اس بات کا جواب دیں گے کہ یہ دولت انکے پاس کہاں سے آئی اور اتنے بڑے پیمانے پر دولت بہانے کا جواز کیا ہے۔ لوگوں کی جانب سے زکوٰة و عشر اور قربانی کی کھالوں کے عطیے ادارہ منہاج القرآن کو دئیے جاتے ہیں اگر یہ پیسے منہاج القرآن کے نہیں تو کہاں سے آئے ہیں۔
اب ہم چلتے ہیں تبدیلی کے نعروں اور نظام کی تبدیلی کی کوششوں کے حوالے سے۔ اس وقت دفاع پاکستان کونسل نظام کی تبدیلی کے حوالے سے بہت متحرک نظر آتی ہے۔ دفاع پاکستان کونسل میں مولانا سمیع الحق، حافظ سعید جیسے معتبر ناموں کے ساتھ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور زیرک جرنیل حمید گل نمایاں نظر آتے ہیں۔ انکے علاوہ کونسل میں اعجازالحق بھی کسی حد تک متحرک ہیں باقی دفاع پاکستان کونسل میں ایسی جماعتیں رہ جاتی ہیں جن کا زمین پر کوئی وجود نہیں تاہم انکے عہدیدار پورے جاہ و جلال سے ضرور نظر آتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے ایک رہنما نے مجھے ایک نشست میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے اپنے ہوم ورک سے آگاہ کیا اور انہوں نے موجودہ نظام کے گول ہونے کے بعد مجوزہ نئے نظام کے خدوخال سے بھی متعارف کرایا۔ انکے مطابق نظام کی تبدیلی طے ہے اور یہ تبدیلی ہو کر رہے گی۔ انکے مطابق نظام کی تبدیلی کے حوالے سے ملک بعض مقتدر قوتوں کی خاموش تائید بھی انکے ساتھ ہے اور مذکورہ رہنما یہ جانتے ہیں کہ نظام کی تبدیلی کیسے اور کب ہو گی کب اس کیلئے راہ ہموار کی جائیگی اور کب اچانک موچودہ نظام کو لپیٹ دیا جائیگا۔ انہوں نے تو مجھے یہاں تک بتایا کہ نئے نظام کے خدوخال طے ہو چکے ہیں اور ہر طرح کا ہوم ورک مکمل ہے اس سلسلے میں مختلف قوتوں نے بھی وقت آنے پر اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کی جانب سے یہ لب و لہجہ قطعاً نیا ہے کیونکہ اس سے قبل دفاع پاکستان کونسل ہندوستان مخالف ۔ سوچ کے ساتھ جدوجہد آزادی¿ کشمیر میں مصروف نظر آتی رہی ہے۔ دفاع کونسل پاکستان نے پاکستانی حکمرانوں کے تیزی سے بھارت کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔تاہم یہ پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کونسل کے رہنما ملکی سیاست اور نظام کی تبدیلی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
نظام کی تبدیلی کے دعووں میں سنجیدگی اس وقت پیدا ہوتی نظر آئی جب مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر چوہدری جعفر اقبال صدارتی نظام کے حق میں گفتگو کرتے ہوئے نظر آئے۔ اپنی نجی محفلوں میں چودھری جعفر اقبال صدارتی نظام کے حوالے سے اس حد تک سنجیدہ ہیں کہ وہ امریکی طرز انتخاب کو ہو بہو ایڈاپٹ کرنے کے متمنی ہیں وہ اپنے اس فلسفے کی حمایت میں حضرت قائداعظم کا ایک فرمان اکثر دہراتے ہیں جس میں قائداعظم نے فرمایا ”انگریزوں کا دیا ہوا قانون اس ملک میں کامیاب نہیں ہو سکے گا اور اگر ہم نے اس نظام پر چلنے کی کوشش کی تو پاکستان خطرات میں گِھر سکتا ہے۔“
نظام کی تبدیلی کے حوالے سے الطاف حسین بھی میدان میں آ چکے ہیں اور انہوں نے کسی بھی ایسی سیاسی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو نظام کی تبدیلی کیلئے چلائی جائے۔ انہوں نے تو طاہر القادری کو فون کر کے اپنی غیر مشروط حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل، طاہر القادری اور الطاف حسین کے پاس نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کونسا فارمولا ہے عوام سرِدست سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے مختلف فارمولوں پر مبنی کچھڑیاں پکنی شروع ہو گئیں ہیں کونسی بیل منڈھے چڑھتی ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم یہ طے ہے کہ کہیں کچھ ایسا سوچا ضرور جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی سے پاکستان کو بھی کچھ ملے گا یا صرف چہرے بدلنے کا نام نظام کی تبدیلی ٹھہرے گا۔

ای پیپر-دی نیشن