پاکستان میں اسلام کی صورت گری
سیکولر سوچ و فکر کے حامل مذہب کو انسان کا نجی معاملہ قرار دیتے ہیں جبکہ علامہ اقبال کے مطابق ”مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اُسکے ہاتھ میں ہے اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسا شخص مجبور ہے کہ جس معاملے پر بھی غور کرے اپنے نقطہ نظر کے ماتحت کرے۔ آپ یہ خیال نہ فرمائیے گا کہ جس مسئلے کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ محض نظری حیثیت رکھتا ہے یہ ایک زندہ اور عملی سوال ہے جس سے بطور ایک دستور حیات اور نظام عمل کے اسلام کی ساری کائنات متاثر ہو سکتی ہے صرف یہی ایک مسئلہ ہے جس کے صحیح حل پر اس امر کا دار و مدار ہے کہ ہم لوگ آگے چل کر ہندوستان میں ایک ممتاز و متمیز تہذیب کے حامل بن سکیں۔ ہندوستان کے مسلمان الگ وطن کا حصول اس لئے چاہتے ہیں کہ وہ اسلام کے مقاصد اور اسکی تعلیمات پر قائم رہنے کے دل سے آرزو مند ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل کے تو برقرار رکھیں لیکن اسکے نظام سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کر لیں جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان نہیں رہتا ہے۔ اسلام کا مذہبی نصب العین اسکے معاشرتی نظام سے جو خود اسی کا پیدا کردہ ہے‘ الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کیلئے بھی کسی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے کیلئے آمادہ ہو گا جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر جو اسلام کے اصول اتحاد کی نفی کرنے پر، مبنی ہو۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو آج مسلمانانِ ہندوستان کے سامنے ہے۔“ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے مندرجہ بالا اقتباس کی روشنی میں سیکولر حضرات سے میرا یہ سوال ہے کہ مذہب کو انسان کا نجی معاملہ قرار دینے کے بعد وہ ریاست پاکستان کی حیات اجتماعی کو کس فلسفہ زندگی، کس نظام اقدار، کس تصور انسان و کائنات، کن تہذیبی، سماجی اور اقتصادی نظریات پر منظم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو ہر صاحب بصیرت جانتا ہے کہ ہر ریاست کو اپنی صورت گری اور تنظیم کیلئے ایک نظام اقدار کی ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ اسے خود تجویز کرے یا کہیں سے اخذ کرے۔ کیا پاکستان کیلئے یہ بات فطری نہیں کہ وہ اپنا نظام اقدار اپنے تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی نظریات اسلام سے اخذ کرے۔ آخر ہم ایسا کیوں نہ کریں۔ کیا اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کیلئے سیاسی، معاشی، سماجی میدانوں میں رہنمائی نہیں دی ہے یا اگر دی ہے تو کیا وہ موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔
اقبال تو اقبال خود قائداعظم بھی ان سوالات کے جوابات نفی میں نہیں دیتے ہیں۔ انہوں نے لاتعداد مواقع پر کہا کہ ہم اسلام کی ابدی تعلیمات سے رہنمائی لیں گے یہاں تک تو شاید مذہب کو ایک نجی معاملہ قرار دینے والے حضرات مجھ سے اختلاف نہ کریں اور کہیں کہ ہم بھی ذاتی زندگی میں اسلام کی ابدی تعلیمات سے رہنمائی لینے کے حامی ہیں۔ اصل میں اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب (i) یہ طے کرنا ہو کر اسلام کی تعلیمات کیا ہیں اور ان کی تعبیر کی آخری اتھارٹی کون ہو گی۔ (ii) اس تعبیر اسلام کو پاکستان میں رائج اور نافد کرنے کا طریق کار کیا ہو گا۔ اصل اختلاف ان دونوں حوالوں سے ابھرتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ قائداعظم تھیوکریسی کیخلاف تھے اور وہ اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد کا حق اور اختیار بھی روایتی مذہب کو دینے کے قائل نہیں تھے ان دونوں امور میں ہمیں اقبال اور قائد یک زبان دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے ان دونوں سوالوں کا جو جواب اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی تشریح اور اسکے مطابق قانون سازی کا حق پارلیمنٹ کو ہو گا۔ البتہ پارلیمنٹ اسلامی ایڈوائزی کونسل سے مشورہ لے سکتی ہے لیکن قانون سازی کی مجاز صرف پارلیمنٹ ہی ہو گی لہٰذا پاکستان میں جزوی طور پر اسلام کی جو بھی صورت گری نظر آتی ہے وہ اسلامائزیشن بذریعہ پارلیمانی قانون سازی کے راستے سے ابھرتی ہے لیکن چونکہ معاشرہ بحیثیت مجموعی اسلام کی انقلابی تعلیمات یا بعض روایتی تعلیمات پر بھی عملدرآمد کرنے کیلئے بھی تیار نہیں اس لئے اسلامائزیشن بذریعہ قانون سازی سے بھی معاشرے میں کوئی جوہری تبدیلی رونما ہو سکی۔ ضیاالحق کے دور حکومت میں جسٹس تنزیل الرحمن نے بہت زور لگایا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کو سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بھی برتر اور زیادہ م¶ثر قرار دیدیا جائے لیکن انکی کسی نے نہ سُنی۔ تو یہ ہے وہ سلوک جو ہم نے پچھلے 65 سال میں اسلام کے ساتھ روا رکھا ہے۔ یہ بات قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتی ہے کہ اگر پاکستان کا طرز حکومت اور آئین سیکولر نہیں ہو گا تو پھر یہاں تھیوکریسی آئیگی۔ یہ ایک یکسر غلط سوچ ہے۔ ایک تیسرا راستہ بھی ہے اور یہ وہی راستہ ہے جو قائد اور اقبال نے پیش کیا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نفاذ اسلام کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہم فوراً اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دونوں حضرات پاکستان کو اسلام کے آفاقی اصولوں سے رہنمائی لینے والی قوم مسلم سٹیٹ بنانا چاہتے تھے جس میں میثاق مدینہ کے مفہوم میں ملت واحدہ قائم رہتی ہے اور جہاں مخلوط انتخابات کا طریقہ رائج ہونا چاہئے۔ قائداعظم بار بار واضح کر چکے ہیں کہ کوئی قوم اگر شعوری طور پر ایک نظام اقدار نہ بھی اپنائے تو غیر شعوری طور پر اسے بہرحال ایسا کرنا پڑتا ہے خواہ اسکا اختیار کردہ نظام اسکے مذہب اور کلچر کے جبر سے کیوں نہ پیدا ہو اور متضاد عناصر کا ملغوبہ ہی کیوں نہ ہو۔
قارئین : فرانسس فوکو یاما End of History میں مغرب کے نظام اقدار خصوصاً امریکہ کی تہذیب کو انسانی فکر کی آخری معراج قرار دیتا ہے مگر ہمارے مفکر پاکستان علامہ اقبال کہتے ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
انسان کی ضرورت یہ نہیں کہ وہ کوئی بھی فلسفہ زندگی اپنا لے یا تصور انسان و کائنات کرے۔ اسے ایسا فلسفہ زندگی و نظام اقدار درکار ہے جو اس کی تمام روحانی، مادی، ابدی، نفسی، فکری، جذباتی، نفسیاتی ضروریات اور Urges کیلئے نسخہ شفا کا کام دے لہٰذا جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے ہدایت تو نازل کی ہے مگر نجی زندگی کے متعلق وہ شدید کنفیوژن کا شکار ہیں۔ خدا کے قرآن پاک میں بیان کردہ زیادہ تر احکامات کا ہماری حیات اجتماعی کے ساتھ تعلق ہے۔ آج ہر انسان کو ضرورت ہے‘ نظریہ کائنات کی، ایک فلسفہ زندگی کی، ایک تصور انسان کی، ایک نظام اخلاق کی۔ وہ نظام اخلاق و اقدار جو انسان کی داخلی وحدت اور روحانی ضروریات کو پورا کرے۔ ایسا صرف اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں وضع کردہ حیات اجتماعی کا مربوط اور منصفانہ نظام ہی مجموعی طور پر انسان کی جملہ ضروریات کی بحسن و خوبی تکمیل کر سکتا ہے۔ یہ رائے کہ اسلام صرف بندے اور خدا کے درمیان ایک نجی تعلق ہے بدیہی طور پر جزوی صداقت ہے آخر ہم انسان کی حیات اجتماعی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں جہاں اسلامی تعلیمات کے متعلق واضح احکامات نہیں ہیں وہاں اقبال کے نزدیک اجتہاد کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے اور اجتہاد کا ماخذ اجماع ہے جو کسی وقت یا زمانے کے سوشل حالات کے پیش نظر اسلامی احکامات کو کوالیفائی کرتا ہے۔ جہاں تک اسلام کی اجتماعی اقتصادی اور سیاسی تعلیمات کا تعلق ہے اسکی افادیت تو آج مغرب کے دانشور بھی تسلیم کرتے ہیں مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کے تحت پاکستان میں سٹیٹس کو‘ کی تخلیق اور اسکے محافظ سماجی، معاشی اور سیاسی اداروں بشمول مجالس قانون ساز کی موجودگی میں وہ شخصیات، وہ ادارے اور وہ قوتیں کیسے روبہ عمل میں آئیں جو اسلام کو ایک روشن نظام فکر و عمل کے طور پر ایک زندہ حقیقت اور ایک قوت کے طور پر نافذ کریں۔