30 دسمبر مسلم لیگ کا یوم تاسیس
چوہدری ناصر محمود ایڈووکیٹ
30 دسمبر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا یوم تاسیس ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کی صورت میں سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کی بڑی وجہ دو قومی نظریہ تھا جو ہندو ذہنیت اور رام راج منصوبہ کا رد عمل تھا جس کی بنیاد پر تقسیم بنگال اور جداگانہ انتخابات کو تسلیم کیا گیا۔
30 دسمبر1906 ءکو ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی طرف سے بلائے گئے مسلم ایجوکیشن کانفرنس کے اجلاس میں ہند کے تمام اہم مسلم اکابرین جمع ہوئے ۔ اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔قرار داد نواب سلیم اللہ خان نے پیش کی ۔ تائید حکیم اجمل خان ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان نے کی ۔ اجلاس میں جسٹس شاہ دین، سید نواب علی ، محسن الملک، نواب سمیع اللہ خان، سید وزیر حسن اور مظہر الحق بھی شامل تھے۔اجلاس میں پیش کی گئی قراد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔
مسلم لیگ کے قیام کی قرار دادمنظور ہونے کے بعد اسی موقع پر یہ ضروری سمجھا گیا کہ اب مسلمانوں کی اس نئی سےاسی جماعت کی تنظیم سازی پر بھی فوری کام شروع کر دیا جائے۔اس مقصد کے لیے علی گڑھ کو اس کا مرکز بنایا گیا۔اور ساٹھ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ۔ اس کمیٹی کے ذمے مسلم لیگ کا دستور بنانے کا کام سونپا گیا۔ جو مسلم اکابرین کے شملہ وفد میں شامل تھے اجلا س میں یہ طے پایا کہ یہ پارٹی ایک صدر ، ایک سیکرٹری، چھ نائب صدور اور دو جائنٹ سیکرٹریز پر مشتمل ہو گی ۔مرکزی کمیٹی میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہو گی ۔اور اس کی مدت تین سال ہو گی نےز ہر صوبے میں جماعت کو منظم کیا جائے گا ۔صوبائی تنظیم کی مدت پانچ سال ہو گی ۔مسلم لیگ کی تنظیم سازی کے کام میں مولانا محمد علی جوہر نے خصوصی دلچسپی لی صدر کے عہدے کے لیے آغا خان کو ذمہ داری سونپی گئی۔ اگرچہ سیکرٹری کے عہدے کے لیے نواب وقار الملک کو چنا گیا تھا لیکن ان کی علی گڑھ میں درس و تدریس سے متعلق مصروفیا ت کی وجہ سے یہ عہدہ سید حسن بلگرامی کو دیا گیا ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا باضابطہ اجلاس 29 اور 30 دسمبر 1907 ءکو کراچی میں منعقد ہوا۔اس اجلاس میں مسلم لیگ کا آئین منظور کیا گیانیز مسلم لیگ کے اغراض و مقاصد کا از سر نو تعین کیا گیا۔مسلم لیگ نے اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں بہت سی کامییابیاں حاصل کیں۔1909 ءمیں منٹو مارلے اصلاحات کے نتیجے میں جداگانہ انتخاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔پہلی دفعہ کسی ہائیکورٹ میں مسلمان جج کا تقر ر ہوا۔مسلم لیگ کی کاوشوں سے اوقاف ایکٹ منظور کرایا گیا۔ تاکہ مسلم اوقاف کا سارا نظام مسلمانوں کے سپرد کیا جا سکے۔معاہد ہ لکھنوءکے تحت مسلم لیگ کو پہلی دفعہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے انگلستان سے ہندوستان واپسی پر وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔لہٰذا انہوں نے پہلی مرتبہ 1906 ءمیں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں شرکت کی اور اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر مختصر عرصے میں کانگریس کے تجربہ کار اور گھاگیاستدانوں میں شمار ہونے لگے۔ اگرچہ 10 اکتوبر 1913 ءمیں قائد اعظم محمد علی جناح نے باقاعدہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔ اگرچہ اگست 1910 ءسے ہی وہ مسلم لیگ کے معاملات میں دلچسپی لے رہے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی شمولیت سے مسلم لیگ کو ایک نئی طاقت اور قوت ملی ۔
جب برصغیر کے سیاسی حلقوں میں ہندو مسلم اتحاد کی بات زور پکڑنے لگی ۔تو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد متوقع اصلاحات کے بارے میں کانگریس سے مفاہمت کرنا تھا۔قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت کی وجہ سے ہی کانگریس سے میثاق لکھنوءہوا۔جس کے نتیجے میں کانگریس نے پہلی بار مسلمانوں کا حق جداگانہ انتخاب تسلیم کیا۔29 دسمبر 1930 ءکو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس آلہ آباد میں منعقد ہوا جس میں علامہ محمد اقبال نے اپنا تاریخی صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ ہند کی معاشرتی اکائیاں یورپی ملکوں کی طرح علاقائی نہیں ہیں ۔ہند بہت سی انسانی جمعیتوں پر مشتمل ایک براعظم ہے جن کا تعلق مختلف انسانی نسلوں سے ہے جو مختلف زبانیں بولتی ہیں ۔ اور یہ مختلف مذاہب کے پیرو کار ہیں ۔اس لیے مسلمان ایک مسلم ہند کی تخلیق و تشکیل کا مطالبہ کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہیں۔ اگرچہ 1927 ءمیں جداگانہ انتخابات اور سائمن کمیشن کے معاملے پر مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی لیکن 4 مئی 1934 ءکو لیگ کی مشترکہ کونسل کا اجلاس دہلی میں ہوا۔جس میں مسلمیگ کے تمام دھڑوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا۔لہٰذا قائد اعظم محمد علی جناح کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر اور حافظ ہدایت حسین کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے دھواں دار دورے کیے۔
تحریک پاکستان کے دوران جہاں مسلم لیگی اکابرین نے مسلم لیگ کو منظم کیا وہاں مسلم لیگ کی ذیلی تنظیموں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ۔1936 ءمیں علی گڑھ یونیورسٹی میں مسلم طلبہ منظم ہوئے اور انہوں نے اپنے رہنماﺅں نعمان زبیری اور واجد قادری کی قیادت میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی ۔ راجہ صاحب آف محمود آباد اور نعمان زبیری کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا بالترتیب صدر اور سیکرٹری چنا گیا ۔ ان کی کوششوں سے 1937 ءمیں کلکتہ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام ممکن ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کوششوں کو بہت سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے خود کلکتہ کے اجلاس کی صدارت کے لیے تشریف لے گئے۔
بنگال میں فیڈریشن کا سہرا جن مسلم طلبہ کے سر رہاان میں اے ٹی ایم مصطفےٰ، فضل القادر چوہدری، شیخ ظہور الدین، محمود علی، شاہ عزیز الرحمان، حمود الرحمان، عبدالصبور خان، اجمل علی چوہدری اور پیر محسن الدین کے نام قابل ذکر ہیں۔پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو بنانے میں حمید نظامی کی قیادت میں سینکڑوں طالب علموں نے حصہ لیا جن میںمولانا عبدالستار نیازی، سید خلیل الرحمان، سید بہاﺅالدین گیلانی اورسید عظمت علی واسطی نمایاں ہیں ۔ لہٰذا جب 1937 ءمیں پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم ہوئی تو حمید نظامی کو موزوں ترین امیدوار سمجھ کر صدارت کی ذمہ داریاں ان کو سونپی گئیں۔ حمید نظامی نے فیڈریشن کا مرکزی دفتر لاہور میں بنایا اور اپنی سرگرمیاں پورے صوبے میں پھیلا دیں ۔ حمید نظامی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے بااعتماد ساتھی بن کر ابھرے۔ طلبہ کی یہ تنظیم سندھ میں بڑی مﺅثر اور فعال رہی جن مسلم طلبہ نے سندھ میں فیڈریشن کے لیے نمایاں جدوجہد کی ان میں پیرزادہ عبدالستار، یوسف ہارون، محمود ہارون، جی الانہ، قاضی فضل اللہ ، آغا غلام نبی پٹھان اور قاضی اکبر کا نام قابل ذکر ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کو فعال کرنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے پشاور کے دورے بھی کیے۔ خیبر پختونخواہ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام کے لیے جن طلبہ نے بھرپور شرکت کی ان میں فدا محمد خان، پیر مانکی شریف، محمد علی خان ہوتی ، محمد طماسپ، کبریا خان، مفتی محمد ادریس، سید مظہر گیلانی ، سعید احمد بخاری ، برہان الدین، دوست محمد کامل اور نور الہٰی کے نام نمایاں تھے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس کے لیے سردار خیر محمد خان ترین ، میر جعفر خان جمالی ، سردار تیمور شاہ، سردار محمد عثمان جوگیزئی اور قاضی محمد عیسیٰ نے بہت کام کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے برطانیہ سے واپسی پر مسلم لیگ میں خواتین کو بھی منظم کرنے کا فیصلہ کیا اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیگم محمد علی جوہر کو مسلم خواتین کو منظم کرنے کا کام سونپا۔ جن کی کوششوں سے خواتین مسلم لیگ کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور اس سلسلے میں محترمہ فاطمہ جناح نے خواتین کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔قائد اعظم کی انتھک کوششوں کے نتیجے میںآل انڈیا مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے کے لیے صوبائی، ضلعی اور پرائمری مسلم لیگوں کی سطح پر منظم کیا گیا ۔ جس کے بعد وہ تاریخ ساز دن آیا جب مسلم لیگ کے 27 ویں اجلاس منعقدہ 23 مارچ 1940 ءکولاہور میں قرار داد لاہور کی منظوری کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تمام مصروفیات کو خیر آباد کہہ کر حصول پاکستان کے لیے جدوجہد تیز کر دی ۔ 14 اگست 1947 ءکو پاکستان صرف اور صرف مسلم لیگی مسلمانوں کی وجہ سے معر ض وجود میں آیا۔ واضح رہے کہ اکثر مصنفین نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاءکے مسلمانوں نے بنایا ہے ۔جو کہ مسلم لیگیوں کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ تاریخ کو بھی مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 14دسمبر 1947 ءکو خالق دینا ہال کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اہم اجلا س ہوا۔اس اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی ۔اجلاس میں مسلم لیگ کی کونسل نے ایک قراد مرتب کی جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کو دو علیحدہ اور جداگانہ تنظیموں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی گئی۔ایک تنظیم پاکستان کے لیے اور دوسری بھارت کے لیے۔ اس اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور صدر مسلم لیگ آخری دفعہ شرکت کی تھی کیونکہ تحریک پاکستان میں مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔اس کے باوجود انہوں نے اجلاس میں شرکت کی ۔اور تقریباً ایک گھنٹہ تقریر کی ۔ ان کی تقریر کا اردو ترجمہ سردار عبدالرب نشتر نے کیا تھا۔مسلم لیگ کے اس اجلاس میں شرکت کے لیے مسلم لیگ جنرل کونسل کے کل 475 میں سے 250 کونسلر کراچی پہنچے تھے۔لہٰذا آل انڈیا مسلم لیگ کو ایک قرار داد کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔اجلاس میں یہ قرار داد پیش کی گئی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا بنیادی مقصد پورا ہو گیا ہے۔ہند دو آزاد اور خود مختار ملکوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔آل انڈیا مسلم لیگ کی بجائے پاکستان اور بھارت کے لیے مسلم لیگ کی علیحدہ علیحدہ تنظمییں ہونی چاہےیں۔ لہٰذا وطن کی آزادی کے بعد اس اہم فیصلے کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے کنوینر لیاقت علی خان مقرر ہوئے جبکہ بھارت میں محمد اسماعیل کو مسلم لیگ کاکنوینر نامزد کیا گیا ۔