• news

سینٹ: سی این جی قیمتوں کا فارمولا طے نہ کرنے پر چیئرمین نے مشیر پٹرولیم کو جھاڑ پلا دی‘ ٹیکس قوانین میں ترامیم کا بل پیش

اسلام آباد (نامہ نگار + ایجنسیاں) وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کالا دھن سفید کرنے کے لئے ٹیکس قوانین میں ترامیم کا بل سینٹ میں پیش کر دیا مالیاتی بل دستور کے آرٹیکل 73 پیش کیا گیا۔ حزب اختلاف نے بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ چیئرمین سینٹ نے معاملہ متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔ چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے سی این جی کی قیمتوں کا فارمولا طے کرنے میں ناکامی پر مشیر پٹرولیم کو جھاڑ پلا دی۔ چیئرمین نے وزیر پٹرولیم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی این جی کی قیمتوں کا تعین کرنا حکومت کا کام ہے عدلیہ کا نہیں، معاملات عدلیہ تک کیوں پہنچے، 50 دن سے سی این جی سٹیشنز پر عوام کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور آپ ابھی تک قیمتوں کا تعین نہیں کر سکے۔ جمعہ کو سینٹ اجلاس میں کرنل ریٹائر طاہر حسین مشہدی نے توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق سی این جی کی قیمتوں کے لئے فارمولا طے نہ کرنا حکومتی ناکامی ہے، بسوں، ویگنوں اور رکشہ والوں کو سی این جی نہیں مل رہی اور عوام کی پریشانی کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ قائد حزب اختلاف اسحق ڈار نے کہا کہ اگر حکومت فیصلے کرنے میں ناکام رہے تو عوام عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور عدالتوں کو فیصلے دینا ہوتے ہیں۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ اس معاملے پر ایک خصوصی کمیٹی بنا دی جائے جس میں وزارت پٹرولیم، اوگرا اور سی این جی کے نمائندگان بیٹھیں تو یہ مسئلہ کل حل ہو سکتا ہے۔ وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے ایوان کو بتایا کہ ملک میں کارٹیلز موجود ہیں جو ریاست سے زیادہ مضبوط ہیں، ملک میں سرمایہ دار مافیا کا راج ہے۔ ان کارٹیلز کو ریاست تحفظ نہیں دے رہی بلکہ محکمہ گیس کے حکام اور ان کے و کلا انہیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ درآمدی گیس کے بغیر گیس کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، 35 لاکھ گاڑیاں سی این جی پر چل رہی ہیں۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے انہیں بیان دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ سی این جی کی قیمتوں کا فارمولا کیوں طے نہیں کیا، کیا قیمتوں کا تعین سپریم کورٹ کرے گی، معاملات عدالتوں تک کیوں جاتے ہیں، آپ نے ایک کمیٹی بنائی تھی وہ کیا کر رہی ہے۔ لوگوں کی حالت زار پر رحم کریں اور قیمتوں کا فارمولا طے کریں۔ اس معاملے پر پارلیمنٹ کے کردار کی بابت قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد رولنگ دوں گا۔ علاوہ ازیں وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفظ شیخ کی جانب سے مالیاتی بل کی نقول پیش کی گئی۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف اسحق ڈار نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس قسم کا بل پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اس بل کو ایوان سے منظور کروا کر دیکھ لیں یہ عدلیہ میں چیلنج ہو گا اور کالعدم قرار دیا جائے گا۔ کیا قومی مفاد میں فیصلے ایف بی آر کرے گی، یہ پارلیمنٹ کی توہین ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وزیر موصوف اس پر روشنی ڈالیں کہ اس قانون کی کیا ضرورت پڑی گئی تھی؟ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس حوالے سے قائمہ کمیٹی اپنی سفارشات دے دے جس کے بعد باقی معاملات کو قومی اسمبلی دیکھے گی۔ اس پر چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے کہا کہ ایسے معاملات جس پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے انہیں متعلقہ قائمہ کمیٹی میں زیر بحث لایا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز نے اجلاس ایک گھنٹہ پانچ منٹ تاخیر سے شروع ہونے پر شدید احتجاج کیا۔ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ ارکان نے تلاوت قرآن پاک کے بعد ایوان میں آنا معمول بنا لیا ہے انہیں وقت پر آنے کا پابند کیا جائے۔ سینٹ کو تحریری طور پر بتایا گیا کہ وزیراعظم کی منظوری سے سال 2011-12ءکے دوران خلیج کے ممالک سے تعلق رکھنے والی غیر ملکی شخصیات کو شکار کے سیزن میں 28 لائسنس جاری کئے گئے۔ ان اجازت ناموں کو منسوخ کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ وزیر مملکت برائے خارجہ عماد ملک نے کہا کہ لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ گذشتہ کئی سال سے جاری ہے، لائسنس کے اجرا کا ہر سال صرف ایک سیزن کے لئے ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں سینٹ میں حکومتی ارکان نے اعلیٰ عدلیہ میں دوہری شہریت کے حامل ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر آئین میں ترمیم کرنے کی تجویز پیش کر دی، جمعہ کو پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی عدلیہ میں تعیناتی کےلئے اہلیت سے متعلق معاملے کو زیر بحث لانے کےلئے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ سینٹ میں ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون کی جانب سے ایوان کو بتایا گیا تھا کہ آئین کے مطابق دوہری شہریت کے حامل افراد کی اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی ہو سکتی ہے۔ انہوں کہا کہ ایک سوال جواب میں اسی ایوان کو بتایا گیا کہ آئین کے مطابق دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص پارلیمنٹ، افواج پاکستان اور سول سروس کا حصہ نہیں بن سکتا تو عدلیہ میں دوہری شہریت کے حامل افراد کو بطور جج تعینات کرنے کی اجازت کیوں دیتا ہے۔ سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ آئین میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے دوہری شہریت سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ ہم نے ہر اداے میں دوہری شہریت کے حامل افراد کی تعیناتی کی مخالفت کی ہے اور اسی طرح عدلیہ میں دوہری شہریت کے حامل افراد کی تعیناتی کی مخالف کرتے ہیں۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ جب دوہری شہریت کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ پابندی عدلیہ پر بھی عائد ہونی چاہئے۔ 

ای پیپر-دی نیشن