پنجاب اسمبلی: پیپلز پارٹی کے رکن وزیراعلیٰ کو میئر لاہور پکارتے رہے‘ سپیکر کا کارروائی کیلئے نوٹس دینے کا اعلان
لاہور (خبرنگار) سپیکر پنجاب اسمبلی نے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی احسان الحق نولاٹھیہ کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو بار بار میئر لاہور کہنے پر وارننگ دینے کے بعد مزید بولنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا مگر اگلے ہی سوال پر ضمنی سوال پوچھنے کی اجازت ملنے پر احسان الحق نولاٹھیہ نے ایک بار پھر میئر لاہور کہنا شروع کیا تو سپیکر نے انہیں بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ ”باز آجائیں ورنہ ایوان میں داخلہ بند کردیا جائیگا“ مگر اسکے باوجود جب احسان الحق نولاٹھیہ نے پھر میئر لاہور کہا تو سپیکر رانا محمد اقبال خان نے احسان الحق نولاٹھیہ سے کہا کہ ”اب آپکو بولنے کی اجازت بالکل نہیں ملے گی۔ صبح آپکو میرا لیٹر مل جائیگا“۔ یہ معاملہ وقفہ سوالات میں پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نرگس فیض ملک کی طرف سے لاہور میں چلنے والی ٹرانسپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے وقت پیش آیا۔ پارلیمانی سیکرٹری ٹرانسپورٹ خرم گلفام کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس وقت 348 بسیں چل رہی ہیں جن کو حکومت سبسڈی دے رہی ہے۔ اس پر احسان الحق نولٹھےہ نے کہا کہ شہبازشریف صرف لاہور میں ہی یہ کام کرتے ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ پنجاب نہیں میئر لاہور ہیں جس پر سپیکر نے انہیں روکا اور کہا ”بیٹھ جائیں“ مگر احسان الحق نولٹھےہ نے دوبارہ میئر لاہور کہا اور بولنا شروع کردیا جس پر سپیکر نے کہا آخری وارننگ دے رہا ہوں مگر وہ بولتے رہے۔ انکا کہنا تھا دوسرے شہروں میں کوئی سہولت نہیں دی جا رہی صرف لاہور ہی کیوں نظر آتا ہے، باقی پنجاب پر نظر کیوں نہیں جاتی جس پر سپیکر نے کہا کہ شہبازشریف منتخب وزیراعلیٰ ہیں۔ اگر دوبارہ یہ الفاظ کہے تو باہر بھیج دونگا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر چودھری عبدالغفور نے کہا کہ یہ اسکی بات کیوں نہیں کرتے جو ٹانگ سے بم باندھ کر تاوان وصول کیا کرتا تھا۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے اکٹھا بولنا شروع کردیا۔ وزیر قانون رانا ثناءاللہ بھی چیمبر سے اٹھ کر فوراً ایوان میں پہنچ گئے۔ سپیکر نے احسان الحق نولا ٹھےہ کو بولنے سے روک کر بٹھا دیا مگر پیپلز پارٹی کی رکن فائزہ ملک کی طرف سے لاہور میں چلائی جانیوالی ٹرانسپورٹ کی تفصیل کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر احسان الحق کو سپیکر نے ضمنی سوال پوچھنے کی اجازت دیدی۔ احسان الحق نے کہا کہ پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا ہے کہ لاہور میں 348 بسیں چلائی جا رہی ہیں، لاہور میں 348 بسیں ضرور چل رہی ہوں گی مگر دیگر 35 اضلاع میں سے کسی ایک شہر میں بھی کوئی بس نہیں چل رہی۔ پارلیمانی سیکرٹری ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ لاہور میں 4 غیرملکی اور 2 ملکی کمپنیاں 348 بسیں 10 مختلف روٹس پر چلا رہی ہیں۔ اس وقت 29 روٹس آپریشنل اور 25 نان آپریشنل ہیں۔ راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ سمیت 7 شہروں میں بسیں چلا رہے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ 2008ءمیں 80 فیصد بسیں بند تھیں لہٰذا سبسڈی دیکر نئی بسیں چلائی گئیں اور پرانی کو آپریشنل کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی رکن ساجدہ میر نے کہا کہ حکومت خود بسیں کیوں نہیں چلا رہی، جی ٹی ایس کیوں بند کی گئی۔ حکومت سبسڈی دے رہی ہے مگر عوام کی مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں۔ حکومت لانگ روٹس پر بسیں چلائے وہ منافع بخش ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ اربن روٹس پر بسیں چلا رہے ہیں جن میں لاہور سے شیخوپورہ، لاہور سے قصور جیسے روٹ شامل ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری ٹرانسپورٹ خرم گلفام نے کہا کہ غیرقانونی ویگنوں کے چالان کرتے اور انہیں بند کرتے ہیں۔ چنگ چی رکشہ غیرقانونی ہے مگر یہ رکشہ چلانے والے غریب لوگ ہیں۔ انکے خلاف کارروائی کریں تو عوامی نمائندے سپورٹ کرتے ہیںمگر ہم یہ دباﺅ برداشت کرکے کارروائی کرتے ہیں۔ ساجدہ میر نے کہا کہ بسوں اور ویگنوں میں مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے۔ بسوں کے اندر کرایہ نامہ نہیں لگایا جاتاجس پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ زائد کرایہ وصولی اور زائد مسافر ٹھونسنے پر چالان کئے جا رہے ہیں۔ ساجدہ میر کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ لاہور میں صرف خواتین کیلئے تین پنک بسیں چل رہی ہیں جبکہ ساجدہ میر کا کہنا تھا کہ یہ بسیں بند ہوچکی ہیں۔ نوید انجم نے کہا کہ سلامت پورہ تا کوٹ عبدالمالک بس سروس بند کردی گئی ہے جس کی وجہ سے عوام سخت پریشان ہیں جس پر پارلیمانی سیکرٹری خرم گلفام نے کہا کہ اس روٹ پر بسیں چلا دیں گے۔ پارلیمانی سیکرٹری نے بتایا کہ ریلوے سٹیشن، اسلام پورہ روٹ پر 16 اور ساندہ تا آر اے بازار روٹ پر 5 بسیں چل رہی ہیں۔