• news

2008ءسے زیر التوا مقدمات باعث شرم ہیں‘ میرٹ پر جلد نمٹائے جائیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ضمیر صاف اور قانون واضح ہو تو منصفانہ فیصلے کرنے کی جرات آ جاتی ہے۔ عدلیہ عوام کو انصاف فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے اور اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنے کیلئے خود احتسابی پر یقین رکھتی ہے۔ کچھ ادارے عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں کرتے۔ 2008ء سے زیر التواء مقدمات ہمارے لئے باعث شرم ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ یہ مقدمات جلد سے جلد آئین اور قانون کے مطابق میرٹ پر نمٹائے جائیں۔ سپریم کورٹ بار کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مفاد عامہ کے کیسز میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ مفاد عامہ کے تحت ان لوگوں کے کیسز نمٹانا مقصود ہے جو ازخود ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مفاد عامہ کے کیسز اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ وہاں پر قانون متحرک ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کی تاریخ کے حوالے سے سب لوگ واقف ہیں۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو وطن عزیز کے ادارے مضبوط تھے۔ پوری دنیا میں پاکستان کے محکمہ آبپاشی کو بہترین سمجھا جاتا تھا۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ایک نہر بنانے کیلئے بیرون ملک سے لوگ بلانے پڑتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاستی اور ملکی ادارے کمزور ہو گئے ہیں جبکہ کچھ ادارے سو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مفاد عامہ کی مقدمے بازی احتساب کا دوسرا نام ہے۔ فیصلہ کرتے وقت وہ خدا کے حضور سر جھکا کر دعا کرتے ہیں کہ ان کے فیصلہ میں برکت دے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں ہر ادارے کے اختیارات کا تعین ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ کیا قانون سازی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کو فائلوں کے نیچے نہیں چھپانا چاہئے اگر ٹھیک نہیں لگتے تو آئین پڑھیں۔ عدلیہ ایک قابل احتساب اور آئین کے تابع ادارہ ہے اور خود احتسابی کا عمل بھی بہت ضروری ہے۔ اسی صورت میں ہی عوام کو انصاف فراہم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زیر التوا مقدمات نمٹانے کیلئے ضلعی عدالتوں کو 3:30 تک فرائض ادا کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ مگر ضلعی عدالتوں نے 6 بجے تک کام کرنا شروع کر دیا جس پر ضلعی عدالتوں سے کہا گیا کہ آپ کام 3:30 تک کریں باقی وقت میں زیر التوا امور نمٹائیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں بار ایسوسی ایشنز کے بغیر نہیں چل سکتیں ہم مل کر ایک مضبوط ادارہ بنا سکتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ضلعی عدلیہ سے روزانہ کی بنیاد پر فیصلہ شدہ مقدمات کی رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں کہ کسی مقدمے میں کسی کے سائل کی حق تلفی تو نہیں کی گئی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ سائلین کو انصاف فراہم کریں اور وکلاءاس مقدس فریضہ میں ہمیشہ کی طرح ہمارے ہمقدم ہو کر چلیں۔

ای پیپر-دی نیشن