طاہر القادری کا جلسہِ عام
ممتاز سکالر اور عالم دین، محققق اور سیاستدان ڈاکٹر محمد طاہر القادری آج اتوار کو لاہور کے مینار پاکستان گراﺅنڈ میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں۔ جلسہ عام کا مرکزی نکتہ خیال"سیاست نہیں ریاست بچاﺅ" ہے جلسہ عام کی تشہیر کے لیے ڈاکٹر صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے ملک بھر میں عمومی اور پنجاب میں خصوصی میڈیا مہم کئی ہفتے سے شروع کی ہوئی ہے۔ یہ جلسہ عام کیسا ہو گا؟اس کا اثر ملکی سیاست اور آئندہ انتخابات پر کس حد تک ہو گا اس کا تجزیہ تو جلسہ عام کے بعد ہی کیا جائے گا، لیکن اب تک جو بات واضح طور پر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کے مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے سے پہلے ان کی جماعت نے جو میڈیا مہم چلائی تھی اس کا مقابلہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی تشہیری مہم سے کیا جائے تو قادری صاحب، عمران خان پر حاوی ہوں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا قادری صاحب بھی عمران خان کی طرح Charged Crowdجمع کر سکیں گے یا نہیں!۔ عمران خان کی نسبت ، قادری صاحب پاکستان کے سیاسی کلچر کے پرانے کھلاڑی ہیں، وہ پارلیمنٹ کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ اتحادوں کی سیاست کا چٹخارہ بھی لیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے نواز شریف کا قرب اور عنایات بھی دیکھی ہیں۔ انہوں نے مذہبی سیاسی رہنماﺅں کی رفاقت اور رقابت کو بھی سہا ہے۔ وہ فن گفتگو اور فن خطابت کی ساتھ ساتھ دینی اور دنیاوی علوم کے شناور بھی ہیں۔ پاکستانی اور مغربی معاشرت کے کڑوے، میٹھے اور خواب آفریں لمحات سے بھی آشنا ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی ترجیحات اور عسکری قوتوں کے پیچ و خم کو بھی سمجھتے ہیں۔ پرویز مشرف کی نسبت انہیں اس بات کا ادراک احسن طور پر ہے کہ پاکستان کی سیاست میں سر گرم ہونے اور سیاست سے کنارہ کش ہونے کے لیے موزوں ترین وقت کون سا ہے۔
طاہر القادری صاحب کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کا جائزہ کئی دلچسپ پہلو لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر صاحب نے شبانہ روز محنت اور باہمت جدوجہد سے معاشرے میں ایک ایسا مقام بنایا ہے جو منفرد حیثیت کا حامل ہے۔بیرون ملک آباد پاکستان نژاد شہریوں سے دینی اور سیاسی مقاصد کے لیے مالی وسائل حاصل کرنے کے عمل میں ان کی کامیابی پاکستان کے تمام دوسرے سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں سے زیادہ ہے۔ طاہر القادری صاحب نے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو اور سکنڈے نیویا کے ممالک ناروے اور ڈنمارک میں جو مراکز قائم ہیں مجھے انہیں دیکھنے کا موقع ملا ہے، ان مراکز کی کارکردگی تقابلی طور پرخاصی بہتر ہے۔ڈاکٹر صاحب نے تفسیر قرآن ، حدیث پاک، فقہ، صوفی ازم ، اسلامی فلاسفی کے علو م حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے علمائے کرام،شیوخ، دانشوروںا ور طالب علموں سے بیک وقت رابطہ رکھتے ہوئے اپنے علم کو جلا بخشی ہے۔ انہوں نے ابلاغیات کے جدید فن میں بھی مہارت حاصل کی ہے۔مسجد کا ممبر ہو، جلسہ عام کا سٹیج یا ٹیلی ویژن چینل علامہ طاہر القادری کے فن خطابت اور گفتگو میں تاثر اور سحر انگیزی نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
قادری صاحب کی عمر اس قت 62سال کے لگ بھگ ہے۔ آپ 19فروری1951کو پاکستان کے ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ڈاکٹر فرید الدین القادری بھی اپنے دور کے جید روحانی علم تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی ابتدائی دینی تعلیم مدینہ شریف کے مدرسے میںہوئی، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1972میں ایم اے اسلامک سٹیڈیز میں گولڈ میڈل لیا اور اسلامی قانون میں ڈاکٹریٹ بھی کی۔ وہ پاکستان کی وفاقی شریعت کورٹ سے بھی وابستہ رہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تحریک کو منہاج القران انٹر نیشنل کا نام دینا ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد1981میں لاہور میں رکھی گئی اس کی شاخیں برطانیہ، فرانس، سپین، ناروے، ڈنمارک، بلجئیم، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، ہانگ کانگ اور جاپان سمیت دنیا کے سو سے زائد ممالک میں قائم ہو چکی ہیں۔منہاج القران نے مغربی ممالک میں بین المذھب، ہم آہنگی پیدا کرنے کے عمل میں قابل تحسین کام انجام دیا ہے۔ پاکستان میں منہاج القران نیٹ ورک کے تحت ایک ہزار سے زائد تعلیمی ادارے اورلائیبریریاں قائم کی گئی ہیں۔اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل Ecosocکی خصوصی مشاورتی کونسل میں منہاج القران کو نمائندگی حاصل ہے۔ منہاج القران تنظیم معاشرے کے بارہ خصوصی پہلوﺅں پر کام کر رہی ہے۔ ان میں منہاج القران یونیورسٹی، منہاج القران فاﺅنڈیشن، مسلم یوتھ لیگ، مصطفویٰ سٹودنٹ موومنٹ، الہدایا، الفرغانہ، مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم، گوشہ درود، فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور پاکستان عوامی تحریک نمایاں ہیں۔
منہاج القران کے بانی ڈاکٹر طاہر القادی کی ہشت پہلو شخصیت جلسہ لاہور میں کیا اعلانات کرتی اور ان اعلانات کو کیا پذیرائی ملتی ہے اس کا علم آج ہو جائے گا۔ ہمارے سیاسی نظام کا کھوکھلا پن اور اب کھل کے سامنے آ چکا ہے عام آدمی کی امیدیں اس سیاسی نظام سے بہت حد تک ختم ہو گئی ہیں۔گزشتہ 65سال کے دوران عوام کو اس نظام سے کچھ نہ ملا ہے۔ اندروانی طور پر تو عوام اس نظام سے مایوس ہیں ہی لیکن بین الاقوامی طور پر بھی بدقسمتی سے پاکستان اور پاکستانیوں کا گراف مسلسل گر رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے میڈیا اور عدلیہ کے کردار کی بناءپر عوام میں ایک موہوم سی امید نظر آئی ہے ۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی قیادت میڈیا اور عدلیہ کے اس کردار سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے محروم نظر آتی ہے۔ ہمارے سیاسی نظام کی مہاریں خواہ سیاستدانوں کے پاس رہی ہوں یا عسکری قیادت کے پاس ، عوام جاگیرداروں، صنعتکاروں، سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے استحصال کا شکار رہے ہیں۔عملاً اس نظام میں صرف حکمران طبقے کے مفادات کو محفوظ بنایا جاتا ہے۔ موجودہ طرز حکومت جمہوریت کے منافی ہے کیونکہ اس نظام میں اکثریت (عوام) نہیںبلکہ اقلیت(حکمرانوں) کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس نظام نے قومی اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ملک کو دہشت گردی ، مہنگائی، کرپشن اور توانائی کے بحران نے مفلوج بنا دیا ہے اس نظام کی اصلاح کیے بغیر اگلی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے اگر عوام شاکی ہیں تو عمران خان کے تبدیلی کے نعرے پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور اب "سیاست نہیں ریاست "کا نعرہ سامنے آیا ہے۔ یہ نعرہ بھی تحریک انصاف کی طرح تبدیلی کا نعرہ ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ایک انتخابی نعرہ ہے یا تبدیلی کی علامت!کہیں ایسا تو نہیں کہ عوامی تحریک بھی استحصال پر مبنی اس نظام سے انتخابی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟