• news

گورنر پنجاب کی تبدیلی


گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے صدر آصف علی زرداری کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ گورنر پنجاب عدلیہ بحالی تحریک کے پُرجوش کارکن تھے اور انہیں اس پُرجوش تحریک کے سب سے پہلے زخمی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اپنے پیشرو کے برعکس انہوں نے اگرچہ پنجاب میں مرکزی حکومت کی ترجمانی کا بھرپور حق ادا کیا مگر انکے دورِ گورنری میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ گورنر پنجاب کی بیان بازی کی جنگ کی شدت میں قدرے کمی رہی اور کسی حد تک شائستگی کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اب ان کا استعفیٰ ”اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی گئے“ کے مصداق نظر آ رہا ہے۔ انہیں پنجاب میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کو غالباً پنجاب میں پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کا گراف بلند کرنے اور جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ کیلئے مخدوم سیداحمد محمود کی شخصیت زیادہ متاثر کن نظر آئی اس لئے انہوں نے ان کو نیا گورنر مقرر کیا ہے۔ میاں محمود احمد کا تعلق فنکشنل مسلم لیگ سے تھا اس لحاظ سے انکے پنجاب میں مسلم لیگی رہنما¶ں سے بھی تعلقات ہیں، لگتا ہے انہیں الیکشن سے قبل جنوبی پنجاب کے حوالے سے خصوصی ٹارگٹ دے کر گورنر شپ دی گئی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ صدر کے ان مقرر کردہ اہداف کو کس طرح حاصل کر پاتے ہیں۔ صدر کی طرح گورنر کا عہدہ بھی غیر سیاسی ہوتا ہے کیونکہ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے کسی پارٹی سے تعلق کی وجہ سے دوسری پارٹیاں ان سے اکثر بدظن رہتی ہیں اور صوبائی حکمران پارٹی سے گورنر شپ کی مخالفت سب کے سامنے ہے اس سے ترقیاتی کام تو دور کی بات خود بہت سے صوبائی انتظامی معاملات بھی درست نہیں چل پاتے۔ نئے گورنر سے توقع ہے کہ وہ مرکز اور صوبے کے مابین کشیدگی کو کم از کم سطح پر لے آئیں گے اور خود کو پارٹی بازی کی سیاست میں ملوث کرنے سے گریز کرینگے۔

ای پیپر-دی نیشن