• news

کشمیر کیلئے ہزار سال جنگ لڑنے کا نعرہ لگانے والی پارٹی کا بھارت کو پسندیدہ قرار دینے کی تیاریاں مکمل آئندہ انتخابات میں ہر پارٹی اپنے منشور میں کشمیر پالیسی واضح کرے


 حکومتی سطح پر2013ءکے پہلے دن سے بھارت کو تجارت کیلئے پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔اس حوالے سے وز ارت تجارت نے پاکستان بھارت تجارت کی اب تک کی تمام رپورٹ تیار کرلی ہے جس میں گیلانی حکومت کے دور میں بھارت کو ایم ایف این درجہ دینے کے فیصلہ کو باضابطہ قرار دینے کیلئے کہا ہے۔ پاکستان نے 2012ءکے آغاز پر بھارت سے تجارت کو معمول پر لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسکی روشنی میں 1209 آئٹمز کی منفی فہرست بنا کر باقی تمام بھارتی اشیا کی درآمد کوکھول دیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ یکم جنوری 2013ءسے بھارت کو ایم ایف این درجہ دے دیا جائیگا۔ 1209 آئٹمز کی فہرست میں نصف کو یکم ستمبر کو نکالا جانا تھا تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور بھارت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ ساری فہرست31 دسمبر کو ختم کر دی جائیگی۔ وزرات تجارت کے ایک اعلیٰ افسرنے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت کو ایم ایف این ملک کا درجہ دینے کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیا جائیگا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری ملنے کے بعد وزارت تجارت نوٹیفکیشن جاری کریگی۔
پاکستان اور بھارت ہمسائے تو ہیں‘ لیکن دونوں کے مابین تقسیم کے پہلے دن ہی سے اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم واجپائی کے اس فلسفے کی بڑی تشہیر کی گئی کہ ہم پڑوسی نہیں بدل سکتے.... واجپائی نے درست کہا‘ یقیناً پاکستان اور بھارت نے ہمیشہ لاکھوں انسانوں کے خون سے کھینچی گئی لکیر کے آرپار رہنا ہے تو کیوں نہ جنگ و جدل کی فضا کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی تنازعہ بھارت کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر غاصبانہ اور جارحانہ قبضہ ہے۔ تقسیم ہند کے ہر ضابطے اور اصول کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے‘ قائداعظم محمدعلی جناح نے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو کشمیر کی آزادی کیلئے فوجی قوت کے استعمال کا حکم دیا تھا‘ بوجوہ گریسی نے حکم کی تعمیل نہ کی البتہ مجاہدین نے آزادی کی جنگ لڑی اور وہ خطہ آزاد کرالیا جو آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ بانی¿ پاکستان کی طرف سے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے اور اسکی آزادی کیلئے فوجی کارروائی کا حکم دینے سے آپکی نظر میں پاکستان کیلئے کشمیر کی خصوصی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان کی مدد سے مجاہدین کی کارروائی جاری رہتی تو قریب تھا کہ پوری وادی کو آزادی نصیب ہو جاتی۔ اس موقع پر بھارت نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کا واویلا کیا‘ جس پر اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے استصواب کی تجویز پیش کی جسے بھارت نے تسلیم تو کیا لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہو سکا۔
 پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکیں جس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو دو ایٹمی ممالک کے مابین ایک اور تباہ کن جنگ ہو سکتی ہے جس کے بعد شاید برصغیر میں تمام تنازعات ختم ہو جائیں‘ نہ بچیں گے انسان نہ رہیں تنازعات۔ خطے کو ایسی تباہی سے بچانے کیلئے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘ بالخصوص امریکہ جو سپرپاور یعنی عالمی چودھری اور پاکستان سے دوستی کا دعویدار ہے اور برطانیہ جس نے تقسیم ہند کے ایجنڈے کو ادھورا چھوڑ دیا۔ عالمی برادری اسی صورت میں نوٹس لے گی جب متاثرہ فریق اپنا کیس پوری قوت سے اٹھائے گا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں قائداعظم جیسی کمٹمنٹ کسی حکمران کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی البتہ گزشتہ صدی کے آخر تک مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کا ہر جمہوری اور غیرجمہوری حکومت کا یکساں موقف رہا۔ مشرف دور میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی اور دیرینہ مو¿قف سے گریز کی پالیسی سامنے آئی۔ کبھی خودمختار اور کبھی کشمیر کی تقسیم کی بات ہوئی۔ بیک چینل ڈپلومیسی آزمائی گئی۔ پاکستان بھارت کے مابین تجارت تعلقات اور دوستی کی نواز شریف کی پالیسی کو مزید آگے بڑھایا گیا۔ آج ہمارے حکمران پاکستان میں قائم ہونیوالی ہر حکومت کشمیر کے معاملے میں کہیں بڑھ کر بھارت نواز ثابت ہوئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارت کی جانب سے سرِمو پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اسکے باوجود معاملات کو تعلقات‘ تجارت اور دوستی سے کہیں آگے لے جا کر بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی تیاری مکمل ہے جس کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کیلئے حکمران نئے سال کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں حالانکہ برسر اقتدار پارٹی کے بانی¿ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کیلئے ہزار سال جنگ لڑنے کا نعرہ لگایا تھا۔ میرواعظ عمر فاروق کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت حق خودارادیت کی قیمت پر نہیںہونی چاہیے۔ میرواعظ کا کشمیر پر موقف علی گیلانی کی طرح سخت نہیں اگر میرواعظ کو بھی پاکستان بھارت تجارت سے حق خودارادیت متاثر ہوتی محسوس ہوتی ہے تو ہر کشمیری کی یہی سوچ ہے۔ پاکستان کے بھارت کو پسندیدہ قرار دینے سے کشمیری قیادت اور عوام بادل نخواستہ الحاق پاکستان کے موقف سے ہٹ کر کوئی اور راہ تلاش کر سکتے ہیں۔
دشمن کو پسندیدہ قرار نہیں دے سکتے‘ جو پسندیدہ ہے وہ دشمن نہیں ہو سکتا۔ بھارت تو پاکستان کی بقاءکا دشمن ہے‘ کیا اس کی پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ وہ روایتی اور غیرروایتی اسلحہ کے انبار کس کیلئے لگا رہا ہے؟ خطے میں اسلحہ کی دوڑ کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتا ہے تو یہ بھی باور کرا دیتا ہے کہ وہ متنازعہ مقبوضہ وادی کو نہیں‘ آزاد کشمیر کو سمجھتا ہے۔ وہ پورے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے‘ اس نے کشمیریوں کو استصواب کا حق دینے کے بجائے مقبوضہ وادی کو اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے بھارت کی ریاست ڈکلیئر کردیا ہوا ہے۔ پھر بھی وہ مذاکرات کی مپز پر آجاتا ہے‘ اس سے بڑی منافقت کیا ہو سکتی ہے۔ ایک طرف ہمارے حکمران بھارت پر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگاتے ہیں‘ وزیر داخلہ رحمان ملک بلوچستان میں ’را‘ کے مداخلت کے ثبوت اٹھائے پھرتے ہیں‘ دوسری طرف پاکستانی عوام کی خواہش کے برعکس بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کا عزم و ارادہ کئے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑی مضحکہ خیزی کیا ہو سکتی ہے؟
ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا ایجنڈہ جو بھی ہو‘ ان کو پاکستان کی سلامتی‘ سالمیت اور وقار سے کھیلنے کا کوئی اختیار اور مینڈیٹ نہیں۔ قوم کسی کو کشمیر پر دیرینہ موقف سے انحراف نہیں کرنے دیگی۔ بہتر ہے کہ وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل تک نہ صرف پسندیدہ ترین ملک قرار دینے سے باز رہیں بلکہ تعلقات اور تجارت پر بھی نظرثانی کریں۔ شرم کی بات ہے کہ آپ لاکھوں کشمیریوں کے قاتل کیساتھ تجارت کر رہے ہیں‘ وہ بھی خسارے کی۔ عام انتخابات جلد متوقع ہیں‘ ہر پارٹی کشمیر کو اپنے منشور کا حصہ بنائے‘ اقتدار میں آکر تقسیم ہند کے ایجنڈے کے بجائے دوسری طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل محب وطن حلقوں کے جذبات کا خون اور قائداعظم کی روح کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔

ای پیپر-دی نیشن