اتوار ‘ 9 صفر المظفر 1434ھ ‘23 دسمبر 2012 ئ
بیوی روٹھ گئی، بھارتی شوہر منانے کیلئے 9 ماہ سے درخت پر بیٹھا ہے، اترنے سے انکار!
درخت پر آشیانہ بنا کر بیٹھا واقعی مجنوں ہے، اب بیوی کو ہی غصہ تھوک دینا چاہئے۔ سنجنے اور تارا کی شادی کے کچھ دنوں بعد ہی لڑائی ہو گئی تھی۔ سنجنے نے چمگادڑ کی طرح درخت پر لٹکنا گوارا کر لیا لیکن ”تارا“ کو نہیں چھوڑا اور یوں گنگنا رہا ہے .... ع
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
عقدِ ناگہانی کے بعد جس سے کسی کو مفر نہیں، ہر لڑکی کا بیشتر وقت اپنے وزن اور شوہر سے جھگڑے میں گزرتا ہے۔ جہاں تک زن و شوہر کی جنگ کا تعلق ہے ہم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ شہید کون ہوتا ہے اور غازی کون، لیکن زن اور وزن کی جنگ میں پلہ فریق اول کا بھاری رہتا ہے لیکن جیت فریق ثانی کی ہوتی ہے، ایسے ہی میاں بیوی کی لڑائی میں بیوی کا پلہ بھاری ہوتا ہے لیکن میاں ہار مان کر بھی جیت جاتا ہے۔ نئی دہلی کا سنجنے بھی بالآخر جیت ہی جائے گا اور ”تارا“ کا پتھر دل موم ہو کر روشنی پھیلائے گا۔ بھارتی باشندہ سنجنے تو عربی شاعر امراءالقیس کے نقش قدم پر چلا ہے وہ بھی عنیزہ کے کپڑے چھین کر درخت پر چڑھ گیا تھا۔ ایسے ماضی قریب میں قصور کے دیہی علاقے میں بھی ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک قبیلے میں رواج ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں بچوں کی شادی کر دیتے ہیں، قاری عثمان کی بیوی وفات پا گئی، عثمان غم سے نڈھال تھا، بیوی کی وفات سے زیادہ اسے اپنے ”رنڈوا“ ہونے کی پریشانی تھی کہ اب کوئی اسے عقدثانی کیلئے رشتہ نہیں دے گا۔ عثمان تدفین کے بعد بیوی کی قبر پر لیٹ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ جب سسرال والوں نے سوچا کہ اسے تو ہماری بیٹی سے بہت محبت ہے انہوں نے دوسری بیٹی کا رشتہ اسے دے دیا اور جناب کے آنسو ایسے خشک ہوئے جیسے اسلام آباد میں سڑکوں سے بارش کے بعد پانی خشک ہوتا ہے، عثمان کہتا ہے جناب اگر یہ ترکیب استعمال نہ کرتا تو یقین جانئے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا، اس بنا پر کہا جاتا ہے
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے دم سے ہے زندگی کا سوز و دروں
٭۔٭۔٭۔٭
نیوز ویک پر وزیر داخلہ رحمن ملک کی ایک بولتی تصویر
نیوز ویک میں وزیر داخلہ رحمن ملک کی بھارتی سرزمین پر لی گئی ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر میڈیا کے سامنے کھڑے ہیں۔ کچھ تصویریں بولتی ہیں اسی طرح رحمن ملک کی یہ خاموش تصویر رو رو کر دُہائیاں دے رہی ہے کہ بھارتی سرزمین پر جا کر ”عزت پاک“ کو خاک میں ملانے کی کیا ضرورت تھی۔ نہ جانے وزیر داخلہ ”نمستے“ کر رہے ہیں یا پاکستانیوں سے معافی مانگ رہے ہیں، انکا خاموش چہرہ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معافی تلافی کی دُہائی دے رہے ہیں، انکا پیلا چہرہ اور ہاتھوں میں رعشہ شکستہ شخص کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ وزیر داخلہ بھارتی زمین پر جا کر احسان اللہ ثاقب کی زبان میں یوں گویا ہوئے
تیری خوشبو سے جل تھل ہو گیا ہوں
ادھورا تھا مکمل ہو گیا ہوں
رحمن ملک بھی بینگن کی مانند اقتدار کی تھالیوں میں اِدھر اُدھر لُڑھک کر وزارتِ داخلہ تک پہنچے ہیں، عنقریب سیاستدانوں کی ”مویشی منڈی“بھی لگنے والی ہے، بہت سارے ”اصولی“ سیاستدان بھی ”وصولی“ کے چکر میں قلابازیاں لگانے سے باز نہیں آئیں گے۔ ان کے باس میں یار لوگ لاکھ خامیاں تلاش کریں لیکن انکی بڑی ”خوبی“ یہ ہے کہ وہ ”مل بانٹ“ کر کھانے کے عادی ہیں۔ انہوں نے سب جماعتوں کو شریکِ اقتدار کیا، اسی وجہ سے چھانگا مانگا کی سیاست شروع نہیں ہوئی۔ عوام کو اس مرتبہ ”خمیرہ گا¶زبان“ کھا کر اپنا حافظہ ٹھیک کر لینا چاہئے تاکہ ووٹ کا صحیح استعمال کر سکیں لیکن رحمن ملک ”ورغے“ پُھل تو سینٹ میں ڈبکی لگا کر ہی تطہیر حاصل کر لیتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭
شہباز شریف کا کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کا اعلان
وزیر اعلیٰ پنجاب نے پہلے 2 روپے کی روٹی اور اب مکان دیکر غریب عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا انہیں بھی اپنے نعرہ کو عملی جامہ پہنانا چاہئے۔ چار دہائیوں سے پی پی کا نعرہ تو گائے کی طرح ”جگالی“ ہی کر رہا ہے، شہباز کے پاس تو صرف ایک ہی پنجاب ہے پی پی کے پاس 2 صوبے اور وفاق، انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ سکیم شروع کر رکھی ہے وہ بھی غریب عوام کیلئے ”عجوہ کھجور“ سے کم نہیں لیکن مکان اور کپڑے پر بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ انکے نعرے کو کوئی چوری نہ کر سکے لیکن اگر وہ کچھوے کی رفتار سے چلتے رہے تو منزل تک پہنچتے پہنچتے کئی ”قائد انقلاب“ انڈے سے نکل آئیں گے پھر سیاست کرنا جوتیوں میں دال بانٹنے کے مترادف ہو گا، تب تو ہر کوئی عوام کو سبز باغ دکھا کر اُلٹی چُھری سے کھال اتارنے کی کوشش کرے گا۔ پانچ دس سال کے بعد سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا فیشن بن چکا ہے اور اکثر جماعتیں اب ”جاگیر داروں کے کلب“ بن چکی ہیں۔
غریبوں کو اپنا رونا رونے کیلئے اب کس جماعت کے در پر جانا چاہئے، سیاسی جماعتوں کا ”جمعہ بازار“ لگا ہوا ہے، غریبوں کو بھی پھونک جھاڑ کر قدم رکھنا ہو گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دلدل میں پھنس جائیں اور سیاسی دلدل بھی کافی گہری ہوتی ہے جہاں پھنسنے کے بعد چاروں اطراف سے پھول اور ٹماٹر یکساں برستے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭