جنرل کیانی نے افغانستان میں قیام امن کو اپنی اولین ترجیح قرار دیدیا : برطانوی خبر ایجنسی کی رپورٹ
وانا+اسلام آباد (رائٹرز) آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے افغانستان میں قیام امن کیلئے حریف جنگجو گروپوں کے درمیان مصالحت کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ فوجی حکام اور مغربی سفارتکاروں کے مطابق اس تازہ ترین اور واضح اشارے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد طالبان کے ساتھ امن عمل کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ خطے میں تعینات کمانڈروں کا کہنا ہے کہ جنرل کیانی ان خدشات کے باعث امن مذاکرات کی جزوی حمایت کر رہے ہیں کہ 2014ءمیں افغانستان میں امریکی جنگی مشن کے اختتام کے بعد پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندی بڑھ سکتی ہے۔ خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جنوبی وزیرستان میں تعینات ایک سینئر فوجی افسر نے بتایا کہ ایک دور تھا جب ہم خود کو افغانستان کے آقا سمجھتے تھے لیکن اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ خود اپنے آقا ہوں تاکہ ہم اپنے مسائل پر توجہ مرکوز کر سکیں، فوجی عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان ایسی فضا پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے جس میں افغانستان کے اندر ایک بڑی مصالحت ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ 7 دسمبر کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ کمانڈروں کے اجلاس میں جنرل کیانی نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ افغانستان میں مذاکراتی عمل کے ذریعے جنگ کے خاتمے کی مکمل حمایت کی جائے گی۔ جنرل کیانی نے کہا کہ افغانستان میں مصالحت ہماری اولین ترجیح ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنرل کیانی کی جانب سے اس حمایت کے بعد صدر اوباما کو امریکی خارجہ پالیسی کے اہم مقصد کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی جبکہ امریکی انتظامیہ پاکستان کو ایک ناقابل اعتماد اتحادی کی نظر سے دیکھتی رہی ہے۔ مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ جنرل کیانی کی جانب سے افغان امن مذاکرات کی بڑھتی ہوئی حمائت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلاءکے طے شدہ پروگرام کے مطابق پختہ عزم کررکھا ہے۔ اسکے علاوہ گزشتہ چند ماہ کے دوران جنگجوﺅں کی طرف سے پشاور ائرپورٹ سمیت کئی اہم مقامات پر حملوں نے پاکستان کی اس تشویش میں اضافہ کیا ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے پاکستانی عسکریت پسند مزید طاقت پکڑ سکتے ہیں۔ ادھرامریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی لڑاکا فوجی 2014میں افغانستان سے اپنی واپسی مکمل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ایک طرف یہ کام جاری ہے اور دوسری طرف چین، ایران اور پاکستان کی توجہ اپنے تباہ حال ہمسائے کے مستقبل پر ہے جو برسوں کی جنگ سے تباہ ہو چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی لڑاکا فوجوں کے نکلنے کی تاریخ ایک سال اور قریب آ گئی ہے اور افغان فوج ملک کی سیکورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاری میں مصروف ہے لیکن ملک میں سیکورٹی فورسز کی تعداد تین لاکھ ہو جانے کے بعد بھی، افغانستان کو طالبان، القاعدہ اور حقانی نیٹ ورکس کی طرف سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جرمن مارشل فنڈ کے تجزیہ کار اینڈریو سمالز نے بیجنگ میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ چین کے دوستانہ تعلقات بے حد اہم ہیں۔ افغان بڑی شدت سے چاہتے تھے کہ چینی آئیں اور سرمایہ کاری کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چین ان چند ملکوں میں شامل ہے جن پر پاکستان اعتماد کرتا ہے۔ لہٰذا عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان سمیت بہت سی مختلف پارٹیاں، افغانستان میں سرمایہ لگانے والے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں، چینیوں کے پراجیکٹس کو کامیاب ہونے کا موقع دینے کو تیار ہو جائیں گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ چین پاکستان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے پر تیار ہوگا، اور پھر پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تا کہ چینی منصوبوں کو کام کرنے کا موقع ملے۔ یہ موقع شاید دوسرے سرمایہ کاروں کو نہ ملے۔