طاہر القادری ‘ الطاف گٹھ جوڑ نے حکمران اتحاد کو خطرے میں ڈال دیا
لاہور (فرخ سعید خواجہ) ڈاکٹر طاہر القادری، الطاف حسین گٹھ جوڑ نے نہ صرف موجودہ حکمران اتحاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ ایک طرف مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ فنکشنل، ق لیگ اور مسلم لیگ ہم خیال کے درمیان اتحاد کی راہ دوبارہ کھول دی ہے تو دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے بھی روشن امکانات پیدا ہو گئے ہیں، بہت ممکن ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری، الطاف حسین کے ہمراہ عمران خان بھی شامل ہو جائیں اور تبدیلی کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کی مﺅثر آواز سامنے آئے گی۔ اس تمام صورت حال پر سب سے زیادہ نقصان آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کو پہنچے گا جن کے اتحادی بکھرتے دکھائی دے رہے ہیں، دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں رکاوٹ مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن تھے۔ سید منور حسن صوبہ خیبر پی کے میں الیکشن 2002ءکی طرح اب بھی پچاس فیصد نشستوں کے طلب گار تھے جبکہ مولانا فضل الرحمن 35فیصد سے اوپر جانے کو تیار نہیں تھے۔ بدلتے ہوئے حالات میں مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن 10جنوری کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی میزبانی میں ہونے والے دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد ”ایم ایم اے“ میں کوٹہ ازسرنو طے کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ دونوں جماعتوں کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ خیبر پی کے میں جماعت اسلامی 40فیصد اور جے یو آئی (ف) 60فیصد کوٹہ لے لیں، بلوچستان میں جمعیت علماءاسلام (ف) اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اور پنجاب میں جماعت اسلامی مسلم لیگ (ن) میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے تو ڈاکٹر طاہر القادری، الطاف حسین، عمران خان کے مجوزہ اتحاد، پیپلزپارٹی اور اس کے حامیوں سمیت مسلم لیگیوں کا اتحاد وجود میں آ جانے پر اُن کا زبردست مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگاڑا، مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف، ہمخیال چیئرمین حامد ناصر چٹھہ نئی صورتحال میں مسلم لیگی دھڑوں میں اتحاد کو مفید سمجھنے لگے ہیں اور ان کے مسلم لیگ ق کے چودھری شجاعت، چودھری پرویزالٰہی سے انڈر سٹینڈنگ ہونے کے امکانات کو کلی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگاڑا نے اپنے کزن سید احمد محمود کی پیپلزپارٹی کی جانب مراجعت کا سخت بُرا منایا۔ یہی وجہ ہے کہ مخدوم سید احمد محمود نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھایا تو مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی سینئر نائب صدر سلطان محمود خان ایڈووکیٹ، سیکرٹری جنرل شیخ انور سعید، مرکزی رہنما عزیز ظفر آزاد اور ملتان کے الحاج اشرف قریشی سمیت کسی ایک عہدیدار نے حلف برداری تقریب میں شرکت نہیں کی۔ اب جبکہ ملک کے گلی کوچوں اور خواص کی محافل میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ طاہر القادری، الطاف حسین اور ان کے ہمراہ عمران خان چلے جائیں تو کیا یہ مل کر عام انتخابات ملتوی کروا سکتے ہیں یا پھر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ ق، دینی سیاسی جماعتیں الیکشن موخر کرانے کی کوششوں کو ناکام بناکر ملک کو جمہوریت کی پٹڑی پر رواں دواں رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔