• news

گورنر پنجاب کی تقرری سودے بازی کا نتیجہ ہے ‘ تبدیلی کا باضابطہ مطالبہ کریں گے: نثار

لاہور (خصوصی رپورٹر) قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آصف علی زرداری کی خرید و فروخت، سوداگری اور قیمت لگانے والی سیاست اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمانوں کے پاس اپنے مخالفین کے خلاف لغو، بے بنیاد اور بے ہودہ الزامات کے سوا اور کچھ کہنے کو نہیں۔ نئے گورنر پنجاب کی تقرری بھی سودابازی کا نتیجہ ہے جس کا مقصد آئندہ الیکشن پر اثرانداز ہونا اور پیپلز پارٹی کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینا ہے مگر اس سے نہ تو جنوبی پنجاب کو فائدہ ہو گا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کو۔ مسلم لیگ (ن) کو نئے گورنر پنجاب کے بارے میں کسی قسم کا ابہام نہیں جب ان کی اپنی پارٹی نے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی ہو تو اب وہ مسلم لیگی کیسے ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) الیکشن میں نئے گورنر پنجاب سمیت تمام گورنرز کی تبدیلی کا باضابطہ مطالبہ کریگی۔ جب آئندہ الیکشن سے پہلے موجودہ حکومت آئینی طور پر خود بخود ختم ہو جائیگی تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے مقرر کردہ سیاسی گورنرز اپنی پوزیشن پر برقرار رہیں۔ طاہر القادری کے متوقع لانگ مارچ پر تبصرہ کرتے ہوئے چودھری نثار علی خان نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کی سیاست میں طاہر القادری کا کوئی رول یا گنجائش ہے وہ اس سے پہلے کئی دفعہ سیاست میں اپنی قسمت آزمائی کر چکے ہیں مگر تمام زندگی عمران خان کی طرح فقط ایک ہی سیٹ حاصل کر سکے ہیں اور وہ بھی جنرل پرویز مشرف کی چھتری اور مدد سے۔ مختلف ذرائع سے طاہرالقادری صاحب شاید لوگوں کو تو اکٹھا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر ووٹرز کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت، نہ ان میں پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال سے ملک کے سیاسی عمل سے مکمل غائب اور لاتعلق رہنے والے اچانک پاکستان میں آ کر کسی قسم کی تبدیلی کا ذریعہ بن سکیں۔ ان تمام عوامل کے باوجود عمران خان اور ایم کیو ایم کا جھٹ سے طاہر القادری کی کشتی پر سوار ہونے کے عمل سے ان دونوں پارٹیز کے اصل عزائم اورکردار بے نقاب ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ اپنے ناکام انقلاب سے مایوس ہو کر عمران خان اب طاہر القادری کے ذریعے اقتدار کی سیڑھی پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔ ہو بہو اسی طرح جیسے انہوں نے چند سال پہلے پرویز مشرف کا اور پھر جنرل پاشا کا کندھا استعمال کیا۔ اس سے بڑی حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم جو گزشتہ پانچ سال سے صوبے اور وفاق میں اقتدار کا لازم ملزوم حصہ رہی ہے اور اب بھی ہے وہ اپنی ہی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے نکلی ہے۔ اس سے بڑی مضحکہ خیز اور عوام کو دھوکہ دینے والی بات نہیں ہو سکتی۔ میں ایم کیو ایم، عمران خان اور طاہر القادری کے اس گٹھ جوڑ پر بس صرف اتنا ہی کہوں گا کہ تینوں پارٹیاں مشرف کو سہارا دینے میں پیش پیش تھیں اور اب جبکہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے ایک دفعہ پھر اکٹھے ہو رہے ہیں تو میں صرف اتنا ہی کہوں گا ”خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے انقلابی تین“

ای پیپر-دی نیشن