بروقت اور شفاف انتخابات کے انتظامات پر چیف الیکشن کمشنر اور آرمی چیف کے تسلی بخش تاثرات.... حکومت امن و امان کنٹرول کرے اور منصفانہ انتخابات کا کریڈٹ لے
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بدھ کے روز اسلام آباد میں نادرا ہیڈ کوارٹر میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم سے ملاقات کے دوران انہیں یقین دلایا کہ آئندہ انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انعقاد کیلئے افواج پاکستان الیکشن کمشن کے ساتھ مکمل تعاون کریں گی اور الیکشن کمشن جو کہے گا ہم اس کی مطلوبہ ضروریات پوری کریں گے۔ اس موقع پر آئندہ انتخابات کی تیاریوں کا بھی مفصل جائزہ لیا گیا اور چیئرمین نادرا نے نئی انتخابی فہرستوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جبکہ آرمی چیف نے اس موقع پر سمارٹ کارڈ کیلئے اپنے کوائف بھی جمع کرائے۔ اجلاس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج، الیکشن کمشن اور سکیورٹی فورسز آئندہ انتخابات کیلئے تیار ہیں اور فوج سمیت تمام اداروں نے الیکشن کمشن کو شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے التوا کی باتیں فضول ہیں وہ ذاتی طور پر کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حق میں نہیں، ان کے بقول نئی مردم شماری تک نئی حلقہ بندیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ آج بلا خوف و خطر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ عام انتخابات بروقت اور صاف شفاف ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد سکیورٹی انتظامات کے بارے میں ان کی تسلی ہو گئی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں امن و امان قائم کر کے ہی بروقت اور صاف شفاف انتخابات کاانعقاد یقینی بنایا جا سکتا ہے اگر اس وقت انتخابات کے ملتوی یا مو¿خر ہونے کی باتیں مختلف حلقوں کی جانب سے سُنائی دے رہی ہیں تو امن و امان پر حکومت کی گرفت کمزور ہونا ہی اس کا جواز بن سکتا ہے۔اگر حکومت کی جانب سے کراچی، کوئٹہ، خیبر پی کے اور ملک کے دوسرے حصوں میں جاری دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ ورانہ کشیدگی پر قابو پانے کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی تردد ہوتا نظر نہیں آتا تو بادی النظر میں اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مخصوص مقاصد کے تحت موجودہ اسمبلیوں کی میعاد سال چھ ماہ آگے لے جانے کا آئینی جواز نکالنے کیلئے امن و امان کی صورتحال پر خود ہی قابو نہیں پا رہی جبکہ تحریک منہاج القرآن کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے ”سیاست نہیں ریاست بچاو¿“ کے ایجنڈہ کے اپنے مقاصد ہیں جو موجودہ حکمرانوں اور اسمبلیوں میں موجود دیگر جماعتوں پر سسٹم کی ناکامی کا ملبہ ڈال کر تین چار سال کی مدت والی عبوری نگران حکومت کی تشکیل کا جواز نکلوانا چاہتے ہیں جبکہ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری کے ایجنڈے کے ساتھ تعاون کے اعلان سے بھی بادی النظر میں اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ایجنڈے کا سہارا لے کر شاید حکومتی حکمران اتحادی خود انتخابات کے التوا کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں اور جب اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے عندیہ دیا جاتا ہے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی صورت میں آئینی طور پر انتخابات مو¿خر ہو سکتے ہیں تو حکومتی منصوبہ سازی کے تحت انتخابات کے التوا کے امکانات کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔
اب چونکہ صدر، وزیراعظم اور متعدد وفاقی وزراءکی جانب سے بھی واضح طور پر یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوں گے تواب تمام سٹیک ہولڈرز کی توجہ آ زادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد پر ہی مرکوز ہونی چاہئے۔ بدقسمتی سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال آج بھی اتنی کشیدہ ہے کہ اس کی بنا پر سندھ میں انتخابات کے التوا کا جواز نکل سکتا ہے جبکہ امن و امان کے حوالے سے صوبہ خیبر پی کے اور بلوچستان کے حالات بھی ہرگز تسلی بخش نہیں، اگرچہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال نسبتاًکنٹرول میں ہے تاہم امن و امان کی خرابی ملک کے تین صوبوں میں انتخابات کے التوا کا جواز بنے گی تو صرف ایک صوبے میں انتخابات کا انعقاد بھی بے معنی ہو جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنی تقاریر میں بار بار باور کرا ر ہے ہیں کہ مقررہ وقت کے اندر انتخابات منعقد نہ ہوئے تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ۔اس تناظر میں بروقت اور آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہی ملک کے مفاد میں ہے جس کے ذریعے غیر جمہوری عناصر کی جانب سے سسٹم کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ آرمی چیف نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کر کے انہیں صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے جس پر چیف الیکشن کمشنر نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے اس لئے اب بروقت انتخابات کی راہ میں بادی النظر میں کوئی امر مانع نظر نہیں آتا۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ آرمی چیف یہ تسلی ہیڈ آف سٹیٹ، یعنی پریذیڈنٹ کو بھی دیتے۔ حکومت کو اب اپنی تمام تر توجہ امن و امان کنٹرول کرنے پر مبذول کرنی چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو انتخابی تیاریوں کے ساتھ ساتھ پُرامن اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمشن کے وضع کردہ ضابطہ¿ اخلاق کی پابندی بھی اپنا شعار بنانا چاہئے۔
کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایم کیو ایم متحدہ کو جو تحفظات ہیں چیف الیکشن کمشنر کے اعلان کے بعد اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کراچی میں فوج کی زیر نگرانی انتخابی فہرستوں کی سکروٹنی کا عمل بھی دو ماہ کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا اس لئے کم از کم یہ ایشوز تو انتخابات کے التوا کا جواز نہیں بن سکتے اگر اس کے باوجود انتخابات کے التوا کی کوئی سازش کامیاب ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری حکمرانوں پر ہی عائد ہو گی کیونکہ انتخابات کا التواءانہی کے فائدہ میں ہے جبکہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جمہوری نظام کے تحفظ کیلئے اپنے عہد کی پاسداری کرتے ہوئے مسلح افواج کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلہ میں سول اتھارٹی کے احکام کے تابع رکھا ہے اور اب انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو بھی مقررہ میعاد کے اندر اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے تو سسٹم کے ڈی ریل ہونے کا کوئی امکان پیدا نہیں ہو سکتا۔ چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے پُرعزم ہیں ۔ اگر ان کے اعلان اور الیکشن کمشنر کی گزارش پرافواج پاکستان کے انتظام کے مطابق مقررہ میعاد کے اندر پُرامن انتخابات کا انعقاد ممکن ہو گیا تو یہی انتخابات سسٹم کی اصلاح اور عوام کی حقیقی نمائندگی بنیاد بنیں گے۔ اگر حکومت اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے کا کریڈٹ لے رہی ہے تو اسے انتخابات کے پُرامن انعقاد کا کریڈٹ بھی لینا چاہئے تاکہ امن و امان کی خرابی انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔