• news

سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن غیر مسلح ہونگے نہ جمہوریت کے حامیوں پر حملے بند کریں گے: حکیم اللہ محسود‘ طالبان حملوں کی بات کر کے کس سے مذاکرات چاہتے ہیں: میاں افتخار

میر علی + پشاور (رسول داوڑ + نوائے وقت رپورٹ) تحریک طالبان پاکستان نے اپنے امیر حکیم اﷲ محسود اور نائب امیر ولی الرحمن کی 42 منٹ کی نئی ویڈیو جاری کی ہے۔ اس ویڈیو میں امیر حکیم اﷲ محسود اور ولی الرحمن کو اکٹھے بیٹھ کر بات چیت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ حکیم اﷲ محسود نے ویڈیو میں تحریک طالبان کی طرف سے پہلی بار حکومت پاکستان کے ساتھ سنجیدہ اور کسی شرط کے بغیر مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ میری سنجیدگی سے مراد یہ ہے کہ مذاکرات مشروط نہ ہوں بلکہ کسی شرط کے بغیر ہوں۔ ولی الرحمن نے حکیم اﷲ محسود سے اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان کوئی اختلافات نہیں۔ ویڈیو میں ولی الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستانی سیاستدان پاکستان کو لوٹنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو سکتے ہیں تو مجاہدین بھی اﷲ کی خاطر ایک ہیں۔ حکیم اﷲ محسود نے تحریک طالبان کے ترجمان احسان اﷲ احسان کو بھی متعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ احسان اﷲ احسان ہیں جو حقیقت ہے افسانہ نہیں۔ تحریک طالبان ایک ہے اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ واضح رہے دو روز قبل تحریک طالبان پاکستان پنجاب کے امیر عصمت اﷲ معاویہ نے اور بعدازاں ترجمان تحریک طالبان پاکستان احسان اﷲ احسان نے اسفند یار ولی کی مشروط مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کو مشروط مذاکرات قابل قبول نہیں اور اب تحریک طالبان کے امیر کی طرف سے دوبارہ کسی شرط کے بغیر سنجیدہ مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ حکیم اللہ محسود نے کہا کہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں مگر غیر مسلح نہیں ہوں گے۔ ہم جمہوری نظام کے خلاف ہیں کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے۔ ہماری جنگ کسی مخصوص جماعت کے خلاف نہیں بلکہ ہماری یہ جنگ غیر اسلامی جمہوری نظام کے خلاف ہے۔ جمہوریت کے حامیوں پر حملے کریں گے۔ حکومت نے پرامن معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ غیر سنجیدہ نہیں ہونے چاہئیں۔ غیر مسلح ہونے کا مطالبہ ایک مذاق ہے، پاکستانی اور افغان طالبان ایک ہیں، ہم افغان طالبان اور القاعدہ کے ساتھ ہیں، القاعدہ کے لئے سر بھی کٹوا سکتے ہیں۔ ولی الرحمن میرے ساتھ بیٹھے ہیں، ولی الرحمن سے کوئی اختلاف نہیں، میں اور ولی الرحمن مرتے دم تک ساتھ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان امریکی اتحاد سے نکل آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کرنا مذاق ہے، مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں مگر سنجیدہ ہونے چاہئیں۔ معاہدے توڑنے میں پہل ہمشہ حکومت نے کی نہ کہ تحریک طالبان نے، حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو تیار ہیں، میڈیا کے یکطرفہ بیانات پر ان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، پشاور ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے ہمارے ساتھی تھے، ان کو غیر ملکی کہنے والے غلط ہیں، حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان میں اختلافات کو پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے اس کو یکسر مسترد کر دیا، طالبان کمانڈر ولی الرحمن نے ویڈیو میں حکیم اللہ محسود کو اپنا امیر پکارا اور کہا کہ تحریک طالبان کے درمیان کوئی گروپ بندی نہیں۔ ولی الرحمن نے کہا کہ ان کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ پاکستان کی بجائے افغانستان جنگ میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں امریکہ سے ڈالر لینے والوں کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی، یہ جنگ اسلام کے نفاذ کے لئے ہے۔ حکیم اللہ محسود، ولی الرحمن اور احسان اللہ احسان نے تحریک طالبان میں اختلافات کو محض میڈیا کا پراپیگنڈا قرار دیا اور کہا کہ دنیا میں جو تاثر ہے کہ ان کے درمیان عہدوں کی جنگ ہے یہ بات قطعاً غلط ہے، ہم نظریاتی سفر طے کر رہے ہیں یہاں پر عہدوں اور کرسیوں کی کوئی لالچ نہیں۔ ہم نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، مذاکرات سنجیدہ ہوں تو بندوق رکھ کر اگر مذاکرات کے لئے کہا جائے تو یہ غیر سنیجدہ بات ہو گی، اسلحہ قبائل کا زیور ہے، بار بار معاہدے کئے گئے جس کے توڑنے میں حکومت نے پہل کی، جیسا کہ بیت اللہ محسود کے ساتھ سراروغہ معاہدہ توڑنے میں حکومت نے پہل کی۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی کمر توڑ دی اور طالبان کی افرادی قوت کمزور ہو گئی ہے وہ غلطی پر ہیں، حالیہ دنوں میں باچا خان ایئرپورٹ پشاور پر ہونے والے حملے نے ثابت کر دیا کہ ہمارے پاس افرادی قوت اور ایک مضبوط طاقت موجود ہے۔ اسلامی نظام اپنایا جائے، سیکولر نظام سے دوری اختیار کی جائے۔ بشیر بلور نے سوات اور قبائلی علاقوں میں ہونے والے آپریشن کی حمایت کی تھی جس میں ہمارے ہزاروں کی تعداد میں کارکن قتل ہوئے، بھاری ہتھیاروں سے بے دردی سے قتل کر دیا گیا، یہ ہمیشہ طالبان کے خلاف ہوتے تھے۔ اے این پی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عدم تشدد کے فلسفہ پر گامزنوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور وہ تشدد کے علمبردار بن گئے ہیں۔ امریکہ کے کہنے پر پختون علاقوں میں پختونوں کا خون بہایا ہے، امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ جنگ جاری رہے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی ڈٹ کر مقابلے کا دعویٰ کرتی ہے، ہم اے این پی والوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ حکومت چھوڑ کر مقابلے کے لئے میدان میں آ جائےں، ہماری جنگ افراد کے خلاف نہیں بلکہ فاسد نظام کے علمبرداروں کے خلاف ہے جن کو پہلے ہی ٹارگٹ کیا مزید ٹارگٹ کریں گے، آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے طالبان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعاً غلط ہے کہ ہم عملی طور پر اس میں حصہ لے رہے ہیں، ہم جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کی حمایت کریں گے۔ اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم امریکہ کے حمایتی ہیں ان کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔ آئندہ الیکشن میں کامیاب ہونے والوں نے اگر طالبان کے خلاف کارروائی کی تو ان کو بھی بھرپور ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تحریک طالبان خلافت کی طرز پر حکومت قائم کرنا چاہتی ہے جس کے لئے ہم تمام تکالیف برداشت کریں گے لیکن شرعی نظام نافذ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری ناانصافی کی وجہ سے انتشار ہے جس کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ملا عمر ابھی تک ہمارے مرکزی امیر ہیں جو افغانستان، پاکستان اور القاعدہ کے طالبان کی کمان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی جنگجو¶ں کو مہمان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں ان کو چھوڑنے کے لئے ہم تیار نہیں کیونکہ ان کی موجودگی کی وجہ سے ہمارے گھر اور علاقے تباہ ہوئے مگر ہم نے اپنے مہمانوں کو چھوڑا نہیں۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے بدلے لینے کا عزم کیا تھا جسے عملی جامہ پہنا کر کراچی مہران بیس اور شبقدر سمیت اب تک ہونے والی بڑی انتقامی کارروائیاں ہیں۔ میڈیا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میڈیا ہمیشہ یکطرفہ کوریج کر رہا ہے جس کے باعث میڈیا ہمارے ٹارگٹ پر ہے۔ دوسری جانب خیبر پی کے کے وزیر اطلاعات میاں افتخار نے کہا ہے کہ طالبان سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ تشدد روکنے کا مطالبہ کیا ہے، میاں افتخار نے مزید کہا کہ طالبان اپنے فیصلے کے حوالے سے کنفیوژ ہیں کیونکہ مذاکرات کی باتیں اور جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دینا دو متضاد باتیں ہیں۔ مذاکرات اور دوسری طرف کارروائیاں جاری رکھنے کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ جمہوریت کی حامی اے این پی پر حملے کی باتیں کر کے طالبان کس سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی دھرتی کی روایات سے واقف ہیں، یہاں ہتھیار ڈالنا مشکل کام ہے، مذاکرات کی کامیابی کے لئے تشدد ترک کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ محسود کا مذاکرات کی پیشکش مثبت قدم ہے۔ اسفندیار ولی کی مذاکرات کی پیشکش سنجیدہ اور شعوری کوشش تھی۔ امن کے لئے ضروری ہے کہ اس کوشش میں پیشرفت ہو۔ دوسری جانب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ بشیر احمد بلور کی شہادت کے بعد تحریک طالبان بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ طالبان کی جانب سے مشروط مذاکرات کی پیشکش کا مقصد اے این پی اور ایم کیو ایم کو دیگر جماعتوں سے الگ کرنا ہے، طالبان اسلام کی خدمت نہیں کر رہے۔

ای پیپر-دی نیشن