بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر بلاول بھٹو کی سیاسی رونمائی اور عدلیہ کو چیلنج.... پیپلز پارٹی اپنے شہید قائدین کی قربانی عوام سے دوبارہ کیش کرا سکے گی؟
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آج ایوان صدر میں کوئی جرنیل نہیں، سیاسی صدر بیٹھا ہے اور سیاسی سرگرمیاں کر رہا ہے۔ ہم سیاست نہ کریں تو اور کیا کریں گذشتہ روز گڑھی خدا بخش میں سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے موقع پر منعقدہ جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی جہاز میں بیٹھ کر جدہ بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم بھاگنے کے بجائے 12سال جیل کاٹ کر ایوان صدر میں آئے ہیں اور اب غیر جانبدار اور شفاف الیکشن کروائیں گے اور پاکستان میں مصری ماڈل نہیں چلے گا۔ اگر کسی نے آنا ہے تو جمہوری طریقے سے آئے۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے عملی طور پر سیاست میں آنے کا اعلان کیا اور کہا کہ نئی نسل کو بلاول کی قیادت مبارک ہو۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس جلسہ عام میں اپنی تقریر کے دوران چیف جسٹس پاکستان کا نام لئے بغیر سخت لب و لہجے میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا وہ ملک کے سب سے بڑے قاضی سے پوچھتے ہیں کہ ان کے پاس پکوڑے، سموسے، چینی اور سی این جی کی قیمتوں کے تعین، کالاباغ ڈیم کے فیصلہ اور لاڑکانہ کی بجلی بند کرنے کے لئے وقت ہے مگر بی بی شہید کے قاتلوں کو سزا دینے اور بھٹو ریفرنس سننے کا وقت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کا ہر فیصلہ قبول مگر میرا سوال ہے کہ انہیں قائد عوام کا رات کو نکلنے والا جنازہ کیوں نظر نہیں آتا اور شہیدوں کا خون کیوں نظر نہیں آتا۔ انہوں نے چیف جسٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب آپ کا کام انصاف فراہم کرنا ہے، حکومت کرنا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کے قاتلوں کو سزا دینے کا یہ وقت نہیں ہے تو پھر یہ ان کی والدہ کی قبر کے ٹرائل کا وقت کیوں ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں اس پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کی یہ پانچویں تقریب تھی جبکہ ان کی ہر برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے سوال اٹھایا جاتا رہاہے کہ ہماری اپنی ہی حکومت کے دور میں شہید محترمہ کے قاتل کیوں بے نقاب نہیں ہو پائے اور انہیں کیوں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ صدر زرداری نے محترمہ کی پہلی برسی کی تقریب پر خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہیں شہید بی بی کے قاتلوں کا پتہ ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر واشگاف الفاظ میں سابق صدر جنرل (ر) مشرف کو اپنی والدہ کا قاتل قرار دیا۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی زندگی میں بھی اپنے ممکنہ قتل کی ایف آئی آر لکھوا گئی تھیں جس میں انہوں نے جنرل(ر)حمید گل، بریگیڈئر اعجاز شاہ،حسن وسیم افضل اورمسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی سمیت چار افراد کو نامزد کیا اور واضح کیا تھا کہ اگر انہیں کوئی جانی نقصان پہنچا تو یہ چاروں افراد اس کے ذمہ دار ہوں گے جبکہ بعد ازاں انہوں نے اپنے مراسلہ میں جنرل مشرف سے بھی اپنی جان کو خطرہ لاحق ظاہر کیا ۔اسی طرح وزیر داخلہ رحمان ملک محترمہ کی ہربرسی سے پہلے یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ ان کی برسی کی موقع پر ان کے قاتلوں کو بے نقاب کریں گے مگر اس اعلان کے عملی قالب میں ڈھلنے کی آج تک نوبت نہیں آئی۔ اس پس منظر میں آج عوام پیپلز پارٹی کی حکومتی قیادت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اپنے ہی دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو گرفتار کرا کے کیوں سزا نہیں دلوا سکے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد جو ابھی انتخاب لڑنے کی عمر کو بھی نہیں پہنچے، گذشتہ روز اپنی والدہ مرحومہ کی پانچویں برسی کے موقع پر اپنی سیاسی رونمائی کراتے ہوئے جارحانہ انداز میں چیف جسٹس پاکستان اور عدلیہ کو چیلنج کرتے نظر آئے اور محترمہ کے قاتلوں کو سزا کے بارے میں جو سوال حکمرانوں سے پوچھا جانا چاہئے وہی سوال وہ چیف جسٹس سے پوچھ رہے تھے کہ ان کی والدہ کے قاتلوں کو سزا دینے کے لئے ان کے پاس کیوں وقت نہیں ہے۔
بلاول بھٹو کی سیاست میں باضابطہ رونمائی خوش آئند ہے اور انتخابی مرحلہ سمیت پیپلز پارٹی کو پیش آنے والے تمام چیلنجز کا سامنا اور مقابلہ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے ہی کرنا ہے۔ صدر زرداری نے جہاں اپنی تقریر میں بلاول بھٹو کو نئی نسل کے قائد کے طور پر پیش کیا وہیں ان کی سیاسی تربیت کے معقول انتظام کا عندیہ بھی دیا۔ بلاشبہ جارحانہ سیاست میں پیپلز پارٹی کا طرہ امتیاز ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسی تناظر میں اپنے نانا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان کیا تاہم ان کی سیاسی تربیت میں انہیں غالباً ابھی تک ہر بات ناپ تول کر کرنے کا درس نہیں دیا گیا۔ اگر تو حقائق کو مسخ کرکے اپنی مفاہمتوں کا عدلیہ پر ملبہ ڈالنے کی روش انہوں نے پارٹی پالیسی کے طور پر اختیار کی ہے تو یہ الگ بات ہے ورنہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے حوالے سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صرف عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرانا ان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے عوام کو قبول نہیں ہو گا۔ جب شہید بی بی کے ورثا ءنے اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود خود ہی اس کیس کی سنجیدگی سے پیروی نہیں کی اور ایف آئی آر تک درج کرانے کی زحمت گوارا نہیں کی تو عدالت نے خود تو محترمہ کے قاتلوں کو پکڑ کر سزا نہیں دینی۔ اصولی طور پر تو محترمہ کے قتل کی سکاٹ لینڈ یارڈ اور یو این تفتیشی ٹیم سے کرائی گئی انکوائری کی رپورٹوں کی بنیاد پر حکومت کو خود ٹرائل کورٹ میں اس کیس کی پیروی کرنی چاہئے اور نامزد ملزم جنرل مشرف سمیت تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے تھا۔ بلاول کا بھٹو ریفرنس کیس کے معاملے میں تاخیر کا گلہ درست ہے لیکن جس لہجے میں انہوں نے گلہ کیا اسے مناسب نہیں کہاجاسکتا۔
جہاں بھٹو خاندان کے ساتھ ہمدردی اور محبت پاکستان میں جگہ جگہ کی جاتی ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ پارٹی کی حکومتی، سیاسی قیادت کے ہاتھوں عوام کی جو درگت بنی ہے، عوام اب انہی کے ہاتھوں محترمہ کی قربانی کو دوبارہ کیش ہونے دیں گے؟ جبکہ عوام کو یہ بھی ادراک ہے کہ محترمہ کے قاتلوں کے معاملہ میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت عوام کے روٹی کپڑا مکان یعنی روزگار، غربت، مہنگائی اور توانائی کے سنگین بحران کی صورت میں موجود گھمبیر مسائل کے حل کی ٹھوس منصوبہ بندی لے کر انتخابات میں جاتی تو مثبت پیشرفت سمجھی جاتی۔مگر اس کے برعکس پیپلز پارٹی عدلیہ اور دوسرے اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کا منشور لے کر عوام کے پاس جانا چاہتی ہے جس میں اسے عوامی پذیرائی حاصل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا ۔ پیپلز پارٹی کو اپنی پُرجوش نوجوان قیادت مبارک ہو۔ یقینا پارٹی کا مستقبل اب اس نوجوان کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ بھٹو خاندان کے جانشین کو خدا اپنے حفظ و امان میں رکھے۔