پاکستان بھارت کرکٹ سیریز‘ بھارتی شائقین کا تعصب برقرار
حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں بھارت کے دورے پر ہے۔ امن کی آشا لکھنے والوں کو امید ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم دونوں ملکوں میں تناﺅکم کر کے امن کی سبیل پیدا کرے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ کرکٹ ٹیم کے دورہ¿ بھارت کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ تاہم بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ واضح کر چکے ہیں کہ ”ممبئی حملوں کے حوالے جب تک کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوتی وہ پاکستان کا دورہ نہیں کریں گے۔“ خوش فہمی میں رہنے والے ہمارے بھارت نواز طبقے کی آنکھیں کھولنے کے لئے بھارتی وزیراعظم کا یہ بیان کافی ہے۔ دوسری طرف جب ہم اپنے اندرونی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ملک میں بدامنی کے پیچھے بھارتی ہاتھ نظر آتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ ہو یا پھر کراچی میں جاری دہشت گردی کی لہر ہر جگہ بھارتی مداخلت موجود ہے لیکن پھر بھی پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھارت کو مالی فائدہ پہنچانے کی خاطر وہاں کرکٹ سیریز کھیلنے کی حامی بھری ہے حالانکہ بھارت کے ذمے دورہ¿ پاکستان کا قرض ابھی باقی ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین کسی بھی سطح کے مقابلے ہمیشہ ہی اعصاب شکن اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ تاہم کرکٹ مقابلوں میں عوامی جوش و خروش عروج پر ہوتا ہے۔ میچ کے دوران دفتروں میں کام سے زیادہ بحث میچ اور کھلاڑیوں کی کارکردگی اور آف دی فیلڈ سرگرمیوں پر ہوتی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا رش معمول سے کم اور گھروں میں مل بیٹھ کر میچ دیکھنے کا اہتمام اور خاص پکوان شامل کر کے کیا جاتا ہے۔ اب تو بڑی سکرینوں پر میچ دیکھنے کا رجحان بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ پاکستان کی ٹیم کے دورہ¿ بھارت کے دوران قومی کرکٹرز کو کئی ایک محاذوں پر لڑنا ہوگا۔ گراﺅنڈز سے باہر متعصب بھارتی میڈیا کھلاڑیوں کو پھنسانے کے چکروں میں رہے گا تو گراﺅنڈ میں سپورٹس مین سپرٹ سے عاری بھارتی کھلاڑیوں کی زبان درازی کا بھی مقابلہ اور سامنا کرنا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر گراﺅنڈ میں موجود بھارت کے شائقین کرکٹ جو ہر حال میں اپنی ٹیم کو ہی کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ان کے مقابلے کا اضافی بوجھ لے کر کھلاڑی میدان میں اُتریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کے سٹیڈیم میں آنے والے شائقین صرف اپنی ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں حالیہ میچیز میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ جب میزبان ٹیم کے کھلاڑی اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں تو سٹیڈیم میں ہر طرف بھارت کے حق میں نعرے لگتے ہیں اور جب بھارتی کھلاڑیوں کو مار پڑ رہی ہوتی ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ بھارتی کھلاڑی بھی اپنے شائقین سے بخوبی واقف ہیں۔ سٹیڈیم میں کسی بھی جگہ اگر شور کم ہو تو گراﺅنڈ میں موجود کھلاڑی اشاروں سے تماشائیوں کو متحرک کرتے ہیں اور اپنے حق میں نعرے لگوا کر مخالف ٹیم کو دباﺅمیں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف تو بھارتی تماشائیوں کا رویہ ہے تو دوسری طرف پاکستان کے شائقین کرکٹ اور تماشائی ہیں جنہوں نے ہمیشہ اچھا کھیل پیش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے انہیں داد دیکر سپورٹس مین شپ اور سپرٹ کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ آخری مرتبہ جب بھارت کی ٹیم پاکستان آئی تھی تو ہمارے حکام نے اپنی ناکامی کے باوجود آتشبازی کر کے بھارتی ٹیم کو ان کی کامیابی کی مبارک باد دی اور حقِ میزبانی ادا کیا تھا۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ دونوں طرف کے عوام اپنی ٹیم کو ہارتا نہیں دیکھ سکتے۔ ہم خوشدلی سے شکست قبول کرتے ہیں، حقِ میزبانی ادا کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہمسایہ سب کچھ بھول کر دشمنی پر اُتر آتا ہے (کیا یہ کھلا تضاد نہیں) عوام کا یہ رویہ اصل حقیقت ہے اور سبق ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو بنیادی مسائل کے حل کے بغیر دوستی اور امن کی باتیں کرتے ہیں۔ چند مفاد پرستوں کے گلے ملنے اور وفود کے تبادلوں سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی کو بھارتیوں کی دشمنی، تنگ نظری اور تعصب کو دیکھنا ہے تو وہ سٹیڈیم میں بیٹھے ان افراد کو دیکھ لیں جو ہر حال میں اپنی ٹیم کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے جھٹلانے کی ناکام کوشش عرصے سے جاری ہے۔