آمرکی باقیات اور پرویز رشید
پرویز رشید نے عمران کے لئے کہا ہے مگر یہ بات ہر پارٹی لیڈر اور خود پرویز رشید کے پارٹی لیڈر کے لئے کہی جا سکتی ہے۔ ”عمران آمرکی باقیات اکٹھی کر رہے ہیں“۔ آمر سے مراد صرف جنرل مشرف تو نہیں۔ جنرل ضیاءاور جنرل ایوب بھی ہیں۔ تو پھر آمر کی باقیات کون ہے؟ بلکہ کون نہیں ہے؟ گوہر ایوب جنرل ایوب کا بیٹا ہے۔ اس کا بیٹا عمر ایوب جنرل مشرف کا وزیر تھا۔ گوہر ایوب کبھی نواز شریف کا وزیر بھی تھا۔
یہ بات پرویز رشید کو بتاﺅں کہ آمروں نے کبھی اپنے بیٹوں کو وزیر شذیر نہیں بنایا۔ نواز شریف نے جنرل ایوب کے بیٹے گوہر ایوب اور جنرل ضیاءالحق کے بیٹے اعجاز الحق کو وزیر بنایا۔ پھر یہ دونوں جنرل مشرف کے ساتھ چلے گئے۔ جنرل مشرف نے نواز شریف کو جلاوطنی پر مجبور کیا۔ انہوں نے خود بھی اپنے آپ کو مجبور کیا؟ پرویز رشید نے بہت ناگفتہ بہ سختیاں جھیلیں اور لندن جلاوطن ہوئے۔
اب گوہر ایوب اور اعجاز الحق دونوں نواز شریف کی پناہ میں آگئے ہیں۔ ان کی ”پناہیں“ بدلتی رہتی ہے۔ وہ آرام گاہیں بلکہ عشرت گاہیں بن جاتی ہیں۔ عمران کے لئے میں بہت اختلاف رکھتا ہوں مگر اس کے لئے اعتراف بھی ہے۔ پرویز رشید بتائیں کہ عمران جنرل مشرف کے ساتھ رہا اور وزیراعظم نہ بن سکا۔ نواز شریف کو جنرل جیلانی نے وزیراعلیٰ پنجاب بنوایا اور پھر جنرل ضیاءنے اپنی عمر بھی نواز شریف کو بخش دی اب وہ انہی کی عمر گزار رہے ہیں؟ ان کے قتل کے بعد وہ وزیراعظم بن گئے۔ جنرل ضیاءکی فوجی باقیات نے انہیں اقتدار دلایا۔ معلوم ہو گیا ہے کہ اصغر خاں کے مقدمے کے فیصلے کی روشنی میں جرنیل کیا چاہتے تھے۔ نواز شریف نے بھی سیاست تحریک استقلال سے شروع کی تھی۔ اب اصغر خان نے تحریک استقلال تحریک انصاف میں ضم کر دی ہے۔
جہانگیر ترین‘ عائلہ ملک‘ محمود علی قصوری وغیرہ وغیرہ عمران خان کے ساتھ ہیں مگر جاوید ہاشمی اور انعام اللہ خان بھی ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کونسے آمر کی باقیات ہیں؟ جاوید ہاشمی جنرل ضیاءکی کابینہ میں تھے۔ پھر نواز شریف کی کابینہ میں بھی تھے مگر انعام اللہ تو کسی کابینہ میں نہ تھے۔ چلیں پرویز رشید بتا دیں کہ کیا امیر مقام طارق عظیم خورشید قصوری جنرل مشرف کی کابینہ میں نواز شریف کے مشورے سے گئے تھے؟ ماروی میمن اور سمیرا ملک جنرل مشرف کی باقاعدہ چہیتی تھیں۔ اب وہ نواز شریف کی بے قاعدہ چہیتی ہیں۔ عائلہ ملک‘ سمیرا ملک کی بہن ہے۔ وہ عمران خان کی چہیتی ہو گئی ہے۔ تو یہ کیا ہے سارے سیاستدان ایک جیسے ہیں۔ خواتین اب مرد سیاستدانوں سے آگے نکل رہی ہیں۔ خواتین کی یہ سیاست جنرل مشرف کا ذاتی ایجنڈا تھا۔ اس پر سارے سیاستدان محبت سے عمل کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہر پارٹی کی یہ خواتین ممبران جنرل مشرف کی ”باقیات“ ہیں؟
نواز شریف چودھری پرویز الٰہی کی کابینہ کے لوگوں کو بھی خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ ان کی خوشامد کرتے ہیں۔ خوش آمدید اور خوشامد میں فرق مٹ گیا ہے۔ پنجاب میں یونیفکیشن بلاک نواز شریف کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ کون آمر کی باقیات نہیں ہے؟ جنرل ایوب کا ایک بیٹا ذوالفقار علی بھٹو بھی تھا۔ وہ جنرل صاحب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے ڈیڈی صاحب کے خلاف بغاوت کی۔ جس طرح اب نواز شریف جنرل ضیاءالحق کا نام لینا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ ایک زمانے میں وہ کہا کرتے تھے کہ میں جنرل ضیاءکے مشن کو مکمل کروں گا۔ نجانے ان کا اپنا مشن کیا ہے؟ شیخ رشید عمران خان کے ساتھ چلا گیا ہے۔ شیخ صاحب کو نواز شریف نے لفٹ نہ کرائی تھی۔ اس حوالے سے مجید نظامی کی سفارش بھی قبول نہ کی تھی۔ کیا برادرم پرویز رشید شیخ رشید کی سفارش کی جرات کر سکتے ہیں۔ شیخ رشید کو وزیر بننے کا شوق ہے وہ نواز شریف کے بعد جنرل مشرف کا وزیر بھی رہا۔ اب عمران خان کے وزیراعظم بننے کا منتظر ہے نواز شریف وزیراعظم بن گیا تو بھی وہ کوئی چکر چلائے گا۔ نواز شریف کا انتقام اور انعام ذاتی ہوتا ہے۔ اناءاور عناد میں ایک بات پرویز رشید کی پکی ہے کہ وہ کبھی لوٹا نہیں بنا۔ ایک دفعہ میرے ساتھ ٹی وی پروگرام کے لئے بغیر پروٹوکول اور سکیورٹی کے خود سوزوکی مہران چلاتے ہوئے آگئے۔ مگر انہوں نے کبھی نواز شریف کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر غور کیا؟ جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے۔
مجھے سب سے زیادہ رنج پرویز رشید کے ان بیانات پر ہے جو وہ چودھری پرویز الٰہی صدر زرداری اور عمران خان کے خلاف دیتے ہیں۔ وہ بیانات نواز شریف کے خلاف بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ یہ بیانات بظاہر چودھری صاحب عمران اور صدر زرداری کے خلاف ہوتے ہیں مگر لگتا ہے جیسے نواز شریف کے خلاف ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کے لئے مسلم لیگ ق پر اعتراض ہے جبکہ اس کی ابتدا مسلم لیگ ن نے کی تھی۔ اور اس کے وزیروں نے جنرل مشرف سے حلف لیا تھا۔ تب نواز شریف نے چودھری برادران سے رضامندی حاصل کر لی ہوتی تو شاید مرکز میں بھی مسلم لیگ کی حکومت ہوتی۔ تب چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعظم بننے کا خطرہ تھا اور نواز شریف نے تو یہ بھی پسند نہ کیا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب ہو گئے تھے۔ پنجاب میں یونیفکیشن بلاک بنانے کی ضرورت بھی نہ رہتی۔ مسلم لیگ ق اور ن ایک ہو جاتیں تو مسلم لیگ ایک ہونے کا خواب پورا ہو جاتا۔ جو مجید نظامی نے دیکھا ہے۔ اس کے لئے خود سب سے بڑے پاکستانی مجید نظامی نے کہا کہ چودھری شجاعت نے مجھے فیصلہ کرنے کا حق دے دیا تھا پیر پگاڑہ شریف مرحوم نے ایوان نظریہ پاکستان میں بیماری کی وجہ سے خود تشریف نہ لا کر اپنے نمائندے کو بھیجا تھا جس نے کہا تھا۔ پیر صاحب قبلہ کا کہنا ہے کہ کوئی کوٹہ کونسل یا ورکنگ کمیٹی نہیں چاہتے نہ کوئی عہدہ مسلم لیگ ایک ہو گی تو ف لیگ غیر مشروط طور پر اُسی کا حصہ ہوگی۔ مگر نواز شریف نہ مانے۔
نوائے وقت میں پرویز رشید کا بیان شائع ہوا اور یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ گوہر ایوب مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے۔ گوہر ایوب نے کہا کہ نواز شریف ہزارہ صوبے کی حمایت کریں گے۔ پرویز رشید کو معلوم ہے کہ مجید نظامی مادر ملت کے سب سے بڑے سپورٹر تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے مادر ملت کی حمایت کی تھی۔ یہ خطاب بھی انہوں نے محترمہ کو دیا تھا نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے تحت مادر ملت کی یاد باقاعدہ منائی جاتی ہے۔ گوہر ایوب اپنے آمر باپ جنرل ایوب کے لئے کراچی میں جلوس نکالتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے پستول چلاتے تھے اور مادر ملت کے لئے ایسی گندی باتیں کرتے تھے جو میں لکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔