پنجاب اسمبلی: پولیو ورکروں پر حملوں کیخلاف متفقہ قرارداد‘ مہم بحال کرنے کا مطالبہ
لاہور (کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں گذشتہ روز انسداد پولیو مہم کے دوران ورکروں پر حملوں کیخلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ قرارداد رکن اسمبلی اعجاز احمد خان نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان کراچی، پشاور اور چارسدہ میں پولیو ورکرز کی ہلاکت کی پرزور مذمت کرتا ہے یہ ایوان پولیو ورکروں کے اہل خانہ اور لواحقین سے اظہار تعزیت کرتا ہے۔ اس ایوان کی رائے ہے کہ دہشت گرد ہمارے ملک کی آئندہ نسل کو اپاہج کرکے وطن عزیزکو صحت کے مسائل سے دوچار کرنا چاہتے ہیں جو کسی طرح اہل پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ایوان وفاقی حکومت اور یونیسیف سے مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کے متاثرہ علاقوں میں انسداد پولیو مہم دوبارہ بحال کی جائے۔ محکمہ آبپاشی کے سوالات کے جوابات کے دوران صوبائی وزیر آبپاشی علی احمد اولکھ نے حکومتی اور اپوزیشن ارکان سیمل کامران، خدیجہ عمر، شفیق خان، منور غوث، احسان الحق نولاٹیہ، چودھری رفیق، نگہت ناصر شیخ، میاں طارق محمود، فتح محمد بزدار اور دیگر کے سوالوں کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ صوبے میں حکومت نے 55چھوٹے ڈیم تعمیر کر لئے ہیں اور18 نئے ڈیمز کے قابل عمل ہونے کی رپورٹس تیار کر لی ہیں جبکہ پنجاب حکومت نے موجودہ مالی سال کے دوران تین ڈیموں پر کام کا آغاز کر دیا ہے جن میں سے سوڑا اور ارڑ مغلام ڈیم کا 15پندرہ فیصد اور چاہان ڈیم کا3فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ باقی ڈیمز پر مرحلہ وار کام جاری ہے، صوبہ بھر میں 23ہزار نہریں ہیں اور9000کچے کھالے ہیں، بجٹ محدود ہے، وسائل ملتے ہی کچے کھالوں کو پکا کرا لیا جائیگا، محکمہ آبپاشی نے2002-7ءکے مالی سال کے دوران تحصیل فتح جنگ میں کوئی ڈیم نہیں بنایا، راولپنڈی میں ایک اور ضلع چکوال اور جہلم میں پانچ پانچ ڈیم بنائے گئے ہیں۔ سرگودھا ڈویژن میں چار راجباہوں پیر پنجہ مائینر، بچہ ڈسٹی برجی، اوپی مائینر برجی اور میلہ ڈسٹی برجی کی لائننگ کی جا رہی ہے جن کے لیے تین کروڑ روپے سے زائد کے فندز رکھے گئے ہیں، 18فروری تا7جولائی2008ءتک پی پی36میں پانی چوری کے64مقدامات درج کرائے گئے۔ وقفہ سوالات کے دوران رکن اسمبلی میاں رفیق نے کہاکہ کالاباغ ڈیم تعمیر نہ ہونا ایک سازش ہے یہاں پانی کی بوند بوند کی بات کی جا رہی ہے جبکہ بھارت نے جہلم اور چناب پر ڈیم تعمیر کر لئے ہیں۔ کالاباغ ڈیم جب تک نہیں بنے گا، ملک تب تک پانی کی کمی کا شکار رہے گا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گذشتہ روز ایک گھنٹہ اور 36منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس جب شروع ہوا اس وقت ایوان میں صرف 10ارکان اسمبلی موجود تھے۔ خاتون رکن اسمبلی نگہت ناصر شیخ کی نجی سکولوں کی جانب سے نویں اور دسویں کے داخلے سالانہ فنڈز سے مشروط کئے جانے کے حوالے سے تحریک التوائے کار کو آئندہ ہفتے تک کیلئے موخر کر دیا گیا۔ اجلاس پیر کی سہ پہر 3بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔خاتون رکن اسمبلی ڈاکٹر سامعہ امجد نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہاکہ میری درخواست ہے کہ اسمبلی میں انکم ٹیکس کاﺅنٹر قائم کیا جائے جو ارکان اسمبلی کو انکم ٹیکس گوشواروں کے بارے میں ایڈوائزری دے۔ میاں رفیق نے کہاکہ نہری پانی کی چوری روکنے اور ٹیل تک پانی پہنچانے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے قائم کی جانے والی خصوصی کمیٹی نے قوانین تشکیل دے دئیے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان قوانین کو ابھی تک اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔ اس ڈرافٹ کو منظوری کے لئے اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ گذشتہ روز قانون شہری ترقی پنجاب کے تحت ترقیاتی اداروں کی رپورٹس برائے 2009-10ءپیش کی گئی یہ رپورٹس پارلیمانی سیکرٹری برائے ہاﺅسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ ظفر اقبال ناگرہ نے پیش کیں۔ بحث کے دوران رانا افضل اور ڈاکٹر مسرت حسن نے ترقیاتی اداروں پر تنقید کی اور کہاکہ فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی سمیت دیگر ادارے اپنے فرائض میں ناکام رہے ہیں۔ این این آئی کے مطابق صوبائی وزیر زراعت و آبپاشی احمد علی اولکھ نے ارکان کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کے غلط جوابات فراہم کرنے پر محکمہ اریگیشن کے 2ایکسیئنز کو معطل کر دیا۔