پشاور:21 لیویز اہلکار سپرد خاک‘ شدت پسندوں کیخلاف آپریشن کی تیاریاں ‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچائیں گے: زرداری
پشاور(بیورورپورٹ) نیم قبائلی علاقہ حسن خیل سے اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے 21لیویز اہلکاروں کو پورے سرکاری اعزاز کیساتھ آبائی علاقوں میں سپرد خاک کردیا گیا، ایف آر پشاور اور اس کے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں، شدت پسندوں نے 21 اہلکاروں کو مذکرات شروع ہونے سے قبل ہی قتل کردیا تھا جبکہ ایک اہلکار زخمی حالت میں بچ گیا اور دوسرا زندہ اپنے گھر پہنچ گیا۔ زخمی اہلکار کو ہسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہے جہاں اس کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے، بھاری ہتھیاروں اور پروپیلڈ گرنیڈوں (آر پی جی) سے لیس شدت پسندوں نے پشاور کے جنوب میں حسن خیل اور جناکوڑ میں واقع لیویز کی تین چیک پوسٹوں سمہ بڈھ بیر، زڑی چیک پوسٹ اور زرکہ چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں دو لیویز اہلکار جاں بحق اور دو زخمی ہوئے جبکہ 23اہلکاروں کو شدت پسندوں نے اغواءکیا تھا اس سلسلہ میں پشاور کے قائم مقام ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن افسر حبیب اللہ عارف کی سربراہی میں مقامی ملکان اور قبائلی عمائدین کے ساتھ جرگہ ہوا، جرگہ میں شریک ملکان و عمائدین کو مغوی لیویز اہلکاروں کی بخفاظت بازیابی کے لئے تین دن کی مہلت دی گئی تھی، مغوی اہلکاروں کو بازیاب نہ کرانے کی صورت میں علاقہ ذمہ داری پوری نہ کرنے پر ملکان کے خلاف چالیس ایف سی آر کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حبیب اللہ عارف نے نوائے وقت کو بتایا کہ قتل کئے جانے والے اہلکاروں کی نعشیں ان کے لواحقین کے حوالے کردی گئی ہیں انہوں نے بتایا کہ مذکورہ مغوی اہلکاروں کی بخفاظت بازیابی کے لئے جرگہ میں شریک ملکان و عمائدین کو تین دن کی مہلت دی گئی تھی لیکن وہ مغویوں کی بازیابی میں ناکام ہوئے۔ پولیٹیکل نظام کے مطابق جس شخص کی زمین پر جو کچھ ہوگا وہ اس کا ذمہ دار ہوگا اس لئے علاقائی ذمہ داری کے تحت مذکورہ اہلکاروں کی بازیابی کی ذمہ داری علاقہ کے ملکان اور عمائدین پر عائد ہوتی ہے، جرگہ کے 18عمائدین کو آج طلب کرلیا گیا ہے جن میں 9افراد کا تعلق جناکوڑ قوم جبکہ دیگر 9کا تعلق حسن خیل قوم سے ہے، مذکورہ ملکان کے خلاف 40ایف سی آر کے تحت کارروائی کی جائے گی، مقامی ذرائع نے نام نہ ظاہر نے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ رات 11بجے کے قریب شدت پسند لیویز کے 23مغوی اہلکاروں کو جبہ حسن خیل میں واقع کھیل کے ایک میدان میں لے آئے شدت پسندوں کی تعداد پانچ تھی، تمام اہلکاروں کے ہاتھ باندھ دئیے گئے، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی، شدت پسندوں نے مغوی اہلکاروں پر فائرنگ کرکے 21اہلکاروں کو قتل کردیا جبکہ ایک اہلکار شدید زخمی ہو کر بے ہوش ہو گیا تھا اس دوران ایک اور اہلکار نے گولی لگنے سے قبل زمین پر گر کر قتل کئے جانے والے دیگر اہلکاروں کے ساتھ لیٹ گیا تاکہ شدت پسندوں کو باور ہو جائے کہ تمام اہلکار مر گئے ہیں تاہم جب شدت پسند جائے وقوعہ سے چلے گئے تو زمین پر گرنے والا اہلکار وہاں سے بھاگتا ہوا گاﺅں پہنچ گیا اور لوگوں کو اس واقعہ کے بارے میں اطلاع کردی جس پر علاقہ کے لوگ کثیر تعداد میں جائے وقوعہ گئے اور 21 نعشوں کو تحویل میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق شدت پسندوںکی جانب سے پاکستان کے نیم قبائلی علاقوں اور پشاور کے مضافات میں کارروائیوں کا سلسلہ بڑھ گیا ہے جس کے پیش نظر انتظامیہ نے ایف آر پشاور اور اس کے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ بچ نکلنے والے کا نام محمد عثمان ہے دوسرے اہلکار امان اللہ کی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں حالت نازک ہے۔ دوسری طرف تحریک طالبان درہ آدم خیل نے اہلکاروں کے اغوا اور قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ گزشتہ روز کالعدم تحریک طالبان درہ آدم خیل کے ترجمان محمد نے نامعلوم مقام سے میڈیا کے نمائندوں کو فون کرکے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ 23 لیوی اہلکاروں میں سے 21 اہلکاروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا، یہ ہم نے انتقامی کارروائی کی ہے کیونکہ ہمارے ساتھی پیر صاحب ا ور امیر کمانڈر طارق آفریدی کے کزن فیصل سمیت دیگر کی گرفتاری اور قتل کے بعد ہم نے انتقاماً ان اہلکاروں کو اغواءکے بعد قتل کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے 21 لیویز اہلکاروں کے قتل کی مذمت کرتے کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات ہمارے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے حکومت شہید اہلکاروں کے لواحقین کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی صدر نے ہدایت کی کہ واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔