طالبان تشدد چھوڑ دیں‘ مذاکرات کو تیار ہیں: رحمن ملک قاتلوں سے بات نہیں ہو سکتی طاہر القادری کا لانگ مارچ نہیں روکیں گے: خورشید شاہ
کراچی (این این آئی+آن لائن) وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ حکیم اللہ محسود سے بات چیت کیلئے تیار ہیں،انہیں تشدد ترک کرکے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔ کینٹ سٹیشن دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں۔ ، عوام کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ جمعہ کو دہشتگردی کا خدشہ تھا اس لئے موبائل سروس بند کی۔ وہ گزشتہ شب وفاقی وزیر سینیٹر بابر خان غوری کی بیٹی کی شادی کی تقریب میںصحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔ شادی کی تقریب میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی اہلیہ کے ہمراہ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری، گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان ،وزیرا علی سندھ سید قائم علی شاہ، وزیراعلی گلگت بلتستان مہدی شاہ، وزیر قانون فاروق نائیک، سابق وزیرا علی بلوچستان محمد یوسف، صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان، وفاقی وزرا خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، منظور وٹو، وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکریٹری سید غالب شاہ، جمعیت علما اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی، مولانا حماد اللہ، صوبائی وزرا عادل صدیقی، عبدالحسیب خان، شرمیلا فاروقی، شیخ رشید احمد، محفوظ یار خان، ہمایوں محمد خان ، اشفاق منگی، اویس مظفر ٹپی، جاوید حنیف، محمد علی شیخ، سینیٹر سعید غنی، مصطفی کمال، وسیم اختر، ڈی آئی جی علیم جعفری، رضا ہارون، کامران ٹیسوری، حضور بخش کلہوڑ، سردار رحیم، نہال ہاشمی اور دیگر معززین نے شرکت کی ۔رحمان ملک نے کراچی کینٹ سٹیشن پر ہونے والے دھماکے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے تجربے اور اب تک کی پولیس رپورٹس کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ یہ بم دھماکہ تھا، کراچی سمیت بعض شہروں میں موبائل سروس کی معطلی بھی ایسی ہی اطلاعات کا نتیجہ تھی اور ہم نے موبائل سروس بند کرکے ملک کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی خوفناک کارروائیوں کو بروقت ناکام بنادیا۔ وہ تفصیلات بیان کرکے لوگوں کو خوفزدہ کرنا نہیں چاہتے تاہم قوم اتنا ضرور سمجھتی ہے کہ انتہائی مجبوری کے پیش نظر ہی موبائل سروس بند کی گئی اور اس سے سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچ گئیں۔ رحمان ملک نے کہا کہ جانتے ہیں موبائل فون سروس کی بندش مسئلے کا حل نہیں مسئلے کا مستقل حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طالبان تشدد کا راستہ چھوڑ دےں تو ان کے ساتھ مذاکرات ہوسکتے ہےں، مذاکرات کی سمت پےشرفت کو حکومتی کمزوری نہ سمجھا جائے، وزےرداخلہ نے حکےم اللہ محسود سمےت تمام طالبان گروہوں سے کہا کہ وہ مذاکرات کےلئے حتمی تارےخ کا اعلان جلد کرےں، ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ عبوری مدت کی حکومتی ذمہ دارےاں اور ٹائم فرےم آئےن مےں واضح ہے،کراچی شہر کا امن تباہ کرنے مےں لشکر جھنگوی، جےش محمد اور سپاہ صحابہ کے بعض گروہ ملوث ہےں۔ رحمان ملک نے کہا کہ عوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ حکیم اللہ محسود اور طاہر القادری ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں۔ طاہرالقادری الیکشن ملتوی کرانے کے بجائے عوام کو ووٹ ڈالنے کی تبلیغ کریں۔ طاہرالقادری کے مصری انقلاب کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم امن کیلئے طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں اور ریٹائرڈ جنرل حمید گل نے انتہا پسند تنظیموں کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ طالبان دہشت گردی ختم کردیں تو مذاکرات کا طریقہ کار طے کیا جا سکتا ہے۔ جمعہ کو مساجد میں دھماکوں کی اطلاع پر موبائل فون سروس بند کئی گئی۔ رحمان ملک کی زیرصدارت اہم اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈپلومیٹک انکلیو اور سفارت کاروں کی سکیورٹی بڑھائی جائے گی، ریڈ زون میں داخلے کیلئے شناختی کارڈ لازمی قرار دیدیا گیا۔ رحمان ملک نے ہدایت کی کہ ہوٹلوں اور ریسٹ ہاﺅسز میں آنے والوں کے مکمل کوائف رکھے جائیں شہر کے داخلی راستوں پر نگرانی کا عمل سخت کیا جائے۔ پولیس بلاوجہ نئے سال کی تقریبات میں مداخلت نہ کرے، ریڈ زون، حساس اور مذہیبی مقامات کے قریب آتش بازی کی اجازت نہ دی جائے نئے سال کے موقع پر کسی کو ہتھیار لیکر چلنے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ اسلام آباد شہر میں لائسنسی اسلحہ لیکر چلنے پر بھی پابندی ہوگی۔
پشاور(نوائے وقت رپورٹ+ایجنسیاں) وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ طالبان انسانیت کے قاتل ہیں مذاکرات کس سے کریں، ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ جو انسانیت سے حیوانیت اختیار کر چکے ہیں ان کا کوئی لیڈر ہے جس سے مذاکرات کریں، مذاکرات سے مسائل حل ہوتے ہیں لیکن کوئی سامنے آئے تو مذاکرات کریں۔ طالبان قتل و غارت گری سے دین کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ 16 مارچ کو حکومت کی مدت پوری ہوگی۔ ایک دن بھی زائد اقتدار اپنے پاس نہیں رکھیں گے۔ علامہ طاہر القادری کی عزت کرتے ہیں مگر وہ نظام میں تبدیلیوں سے آگاہ نہیں۔ لانگ مارچ نہیں روکیں گے، آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ نگران وزیراعظم کس صوبے کا ہوگا، ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔ تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائیگا۔ مذاکرات سے ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔