شہزادے کی رسم تاجپوشی
ہماری تاریخ کئی المناک اور کربناک ابواب سے خوں رنگ ہے۔ 27 دسمبر 2007ءکی شام، شامِ غم بن کر لیاقت باغ راولپنڈی میں اُتری اور بہت کچھ ویران کر گئی۔ بے نظیر بھٹو یا بھٹو خاندان کی سیاست اور طرزِ سیاست سے ہزار اختلاف رکھنے والوں کیلئے بھی یہ قومی سانحہ بڑا دردناک تھا۔ اس حادثے نے 2008ءمیں ڈالے جانے والے ووٹوں کا رُخ موڑ دیا اور پپیلز پارٹی کو ہمدردی کے بہت سے ووٹ ملے۔ اس انتخابی کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی نے کئی دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت قائم کر لی۔ یہ حکومت ایک دو ماہ میں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی ہے۔
بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے موقع پر اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کی پہلی سیاسی پرواز کا میں بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ مجھے خوش گمانی یہ تھی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے کرائسٹ کالج سے فارغ التحصیل ہونے والا تاریخ کا طالب تاریخی شعور سے بہرہ مند ہو گا۔ اسکی نظر نہ صرف عالمی تاریخ پر ہو گی بلکہ وہ ملکی تاریخ کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ ہو گا۔ مجھے امید تھی کہ اسکا ورلڈ ویو پیپلز پارٹی کے روایتی ویو سے بہت مختلف ہو گا۔ میرا گمانِ غالب یہ تھا کہ آکسفورڈ کی فضا میں زیر تربیت رہنے والا نوجوان بڑا مثالیت پسند ہو گا۔ وہ کئی عشروں سے جاری کھوکھلے نعروں، بڑھکوں اور استحصالی کلچر سے مکمل بیزاری کا اعلان کرے گا۔ یہ فقیر بھی کچھ مدت کیلئے کیمبرج میں زیر تعلیم رہا ہے۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی فضا میں سب سے پہلا درس قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی پاسداری، عوام کی طرفداری اور سب سے بڑھ کر عدلیہ کی عزت و احترام کا ملتا ہے۔
سچ پوچھئے تو مجھے بلاول بھٹو زرداری کے پہلے سیاسی خطاب سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ یہ رٹی رٹائی، پڑھی پڑھائی پیپلز پارٹی کی ایک گھسی پٹی تقریر تھی جس میں کھوکھلے نعروں، عدلیہ کی بے حرمتی اور اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور جو کچھ تھا اس سے بلاول بھٹو کی بے خبری اور کم علمی کے علاوہ کچھ عیاں نہ تھا۔
شہزادے نے جس انداز میں چیف جسٹس کو للکارتے ہوئے کہا کہ بڑے قاضی کے پاس بھٹو ریفرنس سُننے اور بے نظیر بھٹو کیس میں قاتلوں کو سزا دینے کا وقت نہیں مگر اُن کے پاس پکوڑے، سموسے، چینی، سی این جی اور کالا باغ ڈیم کے کیس سُننے اور بے نظیر کی قبر کا ٹرائل کرنے کا وقت کیسے ہے۔ شہزادے کی گرم گفتاری سے عدالت کی کتنی توہین ہوئی ہے یا نہیں اسکا تعین تو عدالت اور قانون دان ہی کریں گے البتہ بلاول بھٹو زرداری کو اندازہ نہیں کہ اسکے اس لب و لہجے سے اسکی ماں بے نظیر بھٹو کی روح کتنی تڑپی ہو گی۔ وہ بے نظیر بھٹو کہ جو نظربند چیف جسٹس کی رہائش گاہ کے باہر تک گئیں تھیں اور وہاں انہوں نے بڑا پُرجوش خطاب کیا تھا اور اس خطاب میں کہا تھا کہ ہم برسرِ اقتدار آ کر چیف جسٹس کو نہایت عزت احترام کے ساتھ اُن کی کرسی پر واپس لائیں گے اور اُن کی رہائش گاہ پر ایک بار پھر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے۔ عزیزم بلاول بھٹو عدالت سے پوچھنے کے بجائے پانچ سال تک سیاہ و سفید کے مالک اپنے والد گرامی صدر پاکستان آصف علی زرداری سے پوچھیں کہ اُن کی حکومت نے بے نظیر بھٹو کیس میں دلچسپی کیوں نہیں لی۔ انہوں نے کئی مرتبہ بنفسِ نفیس کہا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں مگر انہوں نے آج تک کسی عدالت کو بتایا نہ عوام کو بتایا اور نہ ہی اپنے اہلِ خاندان کو بتایا کہ قاتل کون ہیں؟ بلاول بھٹو عدالت کے بجائے وزارتِ داخلہ سے پوچھیں کہ آج تک کسی عدالت میں مکمل چالان پیش کیوں نہیں کیا گیا۔ ایف آئی اے نے آٹھ بار نامکمل چالان پیش کئے مگر اب تک وہ حتمی اور مکمل چالان عدالت میں پیش نہیں کر سکی۔
بلاول بھٹو نے طنزیہ کہا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس سموسوں، پکوڑوں اور سی این جی کی قیمتیں مقرر کرنے کا وقت ہے، یہ بات کہتے ہوئے پاکستانی شہزادے نے بعینہ وہ بات کہی جو انقلابِ فرانس کے موقع پر فرانسیسی شہزادی نے کہی تھی کہ لوگوں کے پاس روٹی نہیں تو وہ کیک کھا لیں۔ شہزادے کو معلوم نہیں کہ جب 2008ءکے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو اس وقت آٹا 15 روپے کلو تھا اور آج 35 روپے فی کلو ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کے پاس سموسے اور پکوڑے کھانے کی بھی استطاعت نہیں۔ عوام کی منتخب کردہ حکومت نے ملک کی آدھی آبادی سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے اور وہ (30 روپے والی) سی این جی 90 روپے کے نرخ سے بیچ رہی ہے تو بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کا فریضہ عدالت عظمیٰ کو ہی نبھانا ہوتا ہے کیونکہ آئین، اخلاق اور دین کا یہی تقاضا ہے۔ شہزادے کو کہاں معلوم ہو گا کہ گزشتہ پانچ برس میں قیمتیں دو سو فیصد تک بڑھ چکی ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ملک میں بجلی ہے نہ گیس ہے اور روٹی ہے نہ روزگار ہے۔
نہ جانے مجھے یہ خوش گمانی کیوں تھی کہ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہونیوال مثالیت پسند نوجوان یہ اعلان کرے گا کہ میں نے جو کچھ ایک جمہوری ملک میں دیکھا ہے ویسا ہی میں اپنے ملک کو بناﺅں گا ۔وہ پیپلز پارٹی میں ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرے گا وہ آگے بڑھ کر انگلستان، فرانس اور امریکہ کی طرح پارٹی کے اندر انتخاب کروائے گا پھر پارٹی جسے چاہے گی اپنا لیڈر منتخب کرے گی۔میری اک خوش گمانی یہ تھی کہ بلاول بھٹو پہلی سیاسی پرواز کے موقع پر پاکستا ن میں روزانہ پندرہ بیس ارب روپے کی کرپشن پر اظہار افسوس کرے گا اور روزانہ درجنوں کی تعداد میں مسل دئیے جانے والے کراچی کے عوام کے بارے میں دلی رنج و غم کا اظہار کرے گا۔وہ بری حکمرانی پر اظہار افسوس ہی نہیں اظہار ندامت بھی کرے گا وہ 40بلین ڈالر سے پانچ سالوں میں 130ارب ڈالر ہوجانے والے قرضوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرے گا۔مجھے نہ جانے کیوں یہ یقین تھاکہ ایک آزاد ملک کی فضا میں پَل کر جوان ہونے والا بلاول بھٹو اپنے ملک کی پامال ہوتی ہوئی خود مختاری پر تاسف و اضطراب کا اظہار کرے گا اور وہ یہ کہے گا کہ پہلے جو ہو گیا سو ہو گیا اب میں ملک کی سیاسی و دینی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی قومی پالیسی بناﺅں گا جو پالیسی پاکستان کی خود مختاری کو یقینی بنائے گی، ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیلئے ہر قربانی دینے کا عہد کریگی اور پاکستان کیلئے ایک ایسی اقتصادی منصوبہ بندی کریگی جس سے ہم بہت جلد خود انحصاری کی منزل پر پہنچ سکیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے سیاسی مرتبین کے ذہنی افلاس کا اندازہ لگائیے کہ جو کام پیپلز پارٹی گزشتہ 42 برس سے نہیں کر سکی۔ اسے انہوں نے دوبارہ سیاسی نعرے کے طور پر بلاول بھٹو کے منہ میں ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی پنڈتوں کو معلوم نہیں کہ لوگ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے بیزار ہو چکے ہیں اُن کیلئے اس نعرے میں کوئی کشش نہیں۔ لوگ بھٹو خاندان سے اپنے سیاسی رومان کی بنا پراسے ووٹ دیتے ہیں۔ بھٹو خاندان اور اب زرداری صاحب عام کارکنوں اور جیالوں کو بُھلا کر جاگیر داروں، نوابوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو لا کر کسی کو گورنر، کسی کو پارٹی کا صوبائی صدر اور کسی کو کوئی اور عہدے دیتے ہیں مگر جیالوں نے بھٹو خاندان کے ساتھ انتخابی وابستگی کا جو عہد کیا تھا وہ اب تک اسے نبھاتے رہیں ہیں مگر آنے والے انتخابات میں صورتحال بہت مختلف ہو گی۔ پیپلز پارٹی نے ان پانچ سالوں میں جیالوں اور عوام کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اسکی بنا پارٹی کے ووٹ بنک میں بہت کمی آئے گی۔
ہم نے تو اپنے خوابوں میں نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو ایک روشن خیال جیالے کے روپ میں دیکھا تھا مگر انہوں نے بڑھکوں، دھمکیوں اور خالی خولی نعروں سے مرصع تقریر کر کے آنِ واحد میں ہمارے خوابوں کے محل کو زمیں بوس کر دیا ہے تاہم بلاول بھٹو زرداری کو اپنی رسمِ تاجپوشی مبارک ہو۔