• news

پروفیسر صاحب بھی پردہ فرما گئے


پروفیسر صاحب بہت دنوں سے بیمار تھے۔ ہمارے جتنے نصیب تھے، وہ ہمارے درمیان رہے، پھر وہ جس کے دین کی خدمت میں زندگی بسر کی، اس کے پاس چلے گئے۔ ہم سے اوجھل اور اپنے خالق کے قریب ، میں نے جماعت اسلامی کی تین ایسی شخصیات کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کی جن کے انتقال پر ان کے ساتھیوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہی کہ وہ سینہ تان کر اللہ پاک کے حضور حاضر ہو گئے، ان لوگوں کی زندگیاں جن کے درمیان گزریں، ان کی یہی گواہی تھی۔
میاں طفیل محمد، ملک غلام علی اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کے چہرے پر جو نجابت ،ملائمت اور شگفتگی تھی، وہ ان کے ملنے والوں کو کبھی فراموش نہ ہو سکے گی۔ جماعت سے کوئی کتنا بھی نظریاتی تعصب کرتا تھا، پروفیسر صاحب کو سامنے پا کر اس کے دل میں سوائے احترام کے اور کچھ باقی نہ رہتا۔ میں نے پروفیسر صاحب کے ساتھ کسی کا ذاتی اختلاف نہیں دیکھا۔ ان کی شخصیت کا کوئی مخالف نہیں تھا۔ مرحوم و مغفور کے وسیع قلب میں ہر انسان کے لیے خلوص کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ وہ محبوب خلائق تھے۔ ان کی رائے سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کی ذات گرامی سے اختلاف کسی کو نہ تھا۔
میرے غریب خانے پر وہ جب بھی تشریف لاتے کافی دیر تک بیٹھے رہتے۔ وہ کہتے کہ میں عام سے صحافیوں کے ہاں بھی جاتا ہوں مگر ان کے گھر عام نہیں ہوتے لیکن تمہارا گھر تمہاری طرح ایک عام سا گھر ہے جس میں تکلف نہیں، نمود و نمائش نہیں، بس جو ہے سو ہے۔ جواب میں وہ مجھے کچھ نہ کہنے دیتے اور کسی سیاسی یا ذاتی مسئلے پر بات شروع کر دیتے۔ میرے دل میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا اتنا احترام تھا کہ انھوں نے مجھے ظاہر کرنے کی کبھی اجازت نہ دی۔ آج میں اردو کی لغت میں ایسے الفاظ تلاش کر رہا ہوں جو ان کے بارے میں میرے جذبات کی عکاسی کر سکیں مگر افسوس کہ مجھے اس زبان کی کوتاہی اور مفلسی پر دکھ ہوتا ہے۔ لکھنا میرا پیشہ ہے لیکن ایک موضوع ایسا بھی نکل آیا ہے جس پر میں کچھ لکھ نہیں سکتا۔
جماعت اسلامی کے اس رہنما کے بارے میں صرف اتنا عرض کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے جن نظریات کو درست تسلیم کر کے ان کو قبول کیا، اپنی پوری عمر ان کی دعوت خدمت اور ان کا عملی نمونہ بن کر بسر کر دی۔ پروفیسر صاحب سیاست کے اس دور سے تعلق رکھتے تھے جب کسی سیاستدان پر سوائے کرپشن کے اور کوئی بھی الزام لگایا جا سکتا تھا اور یہ تو ان سیاستدانوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو متوسط بھی نہیں غریب تھے مگر اپنی نظریاتی دولت اور امارت سے رﺅسا میں شمار ہوتے تھے کیونکہ ان کے لیے امارت اور غربت کے معیار وہ نہیں تھے جو رائج الوقت تھے اور ہیں۔
ان کے چہرے پر نظریات کی روشنی جگمگاتی تھی جس سے ان سے ملنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ کسی کو ان کی امارت اور غربت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ تھے، ایک نعمت تھے اور میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جو اس نعمت سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ کیا معلوم ان کے پاس ہمارے لیے بھی کوئی سفارش ہو ورنہ ہم یہی کہیں گے کہ یا اللہ ہم تمہارے ان بندوں کی جوتیاں سیدھی کرتے رہے ہیں۔ ہمیں اتنا بڑا اعزاز حاصل رہا ہے۔
میاں طفیل محمد اور ملک غلام علی لاہور میں تھے اور ہمارا کوئی بچہ یا کوئی بڑا بیمار ہوتا تو ان میں سے کسی کے پاس حاضر ہوتا۔ ان کی دعا کلمہ شفا بن جاتی اور اگر وہ کہتے کہ کسی طبیب سے رجوع کرو تو پھر کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا ورنہ ہمارے گھر کا شفاخانہ یہی لوگ تھے۔ ان کا تقویٰ اور ان کے کردار کی برکت ہی ہمارا سب کچھ تھی۔ ہم نے پردیس میں کبھی اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھا۔ گزشتہ دنوں ہمارے گھر میں ایک بچہ بیمار ہوا تو اس کی ماں نے ان مرحوم و مغفور بزرگوں کو بہت یاد کیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ مایوس ہی ہو گئی ہے۔ میں آج اپنے اس زندہ و سلامت دوست کا ذکر نہیں کرتا جس کے پاس بھی ہمارے لیے ان دنوں بھی شفا ہے اور ہم پر شفقت فرماتے ہیں۔
آج میں ان سیاسی لوگوں کو یاد کرتا ہوں جن کے لیے سیاست بلاشبہ ایک عبادت اور خدمت تھی اور ان کے معاصرین کو دیکھتا ہوں جن کے لیے سیاست ایک کاروبار تجارت اور طلب زر کا ذریعہ تھی اور ہے تو پریشان ہو جاتا ہوں، اس وقت میرا ملک جن مصائب اور گوناگوں مسائل میں پھنسا ہوا ہے، یہ سب ان خود غرض گندے سیاستدانوں کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان آج دنیا کے سب سے زیادہ یا بہت بڑے نامی گرامی کرپٹ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑی سزا ہے اور یہ جاری ہے۔ کئی نئے نئے شعبدہ باز نمودار ہو رہے ہیں اور بے پناہ دولت سے وہ پاکستان کے غریب اور نادار باشندوں کو خرید رہے ہیں۔
سیاست میں اتنی دولت خرچ کرنا بذات خود ایک گناہ اور جرم ہے لیکن یہ جرم برسرعام کیا جا رہا ہے اور اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے، اسی لاہور شہر میں عام جلسوں پر سو ڈیڑھ سو روپے خرچ ہوتے تھے جس میں سب سے بڑا خرچ لاﺅڈ اسپیکر کا ہوتا تھا۔ دوسرا بڑا اسٹیج بنانے کا اور تیسرا ہم رپورٹر صحافیوں کے لیے میز کرسی کا بندوبست کرنے کا۔ اسٹیج کے سامنے دوچار دریاں بچھا دی جاتی تھیں اور بس باقی حاضرین گھاس پر بیٹھ جاتے یا کناروں پر کھڑے رہتے۔ اسی حالت میں عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا مودودی اور بھٹو صاحب کے جلسے ہوجاتے اور ان کا سیاسی پیغام ملک بھر میں پھیل جاتا تھا۔
آج اس لاہور میں سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں کے خرچ سے جلسے ہوتے ہیں اور کروڑ بھی اتنے زیادہ کہ یقین نہیں آتا۔ اتنے کروڑوں کو تو خرچ کرنے کے لیے بھی کروڑوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہر حال اب ہم انھی نا ممکن حالات سے گزر رہے ہیں۔ باہر کے دشمن اپنی جگہ جو بہت ہیں اور اب تو اندر کے دشمن بھی کم نہیں ہیں۔ یہ وہ فضا اور ماحول ہے جس میں ہم پروفیسر غفور سے بھی محروم ہو گئے۔ سیاست سے یہ برکت بھی اٹھ گئی ہے اللہ مالک ہے۔

ای پیپر-دی نیشن