پاکستان کی داخلی سیاست میں مغرب کی دلچسپی
نومبر 2012ءمیں امریکی صدارتی انتخابات میں اہم بات دیکھی گئی جب صدارتی امیدوار مٹ رومنی سے پاکستان کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نہایت اہم ایٹمی قوت کا حامل ملک ہے اور اسے کسی صورت بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج کل کے حالات میں جبکہ امریکہ اور اتحادیوںبرطانیہ سمیت افغانستان میں جنگ کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں تو تمام دنیا کی نظریں پاکستان کی قیادت پر ہیں کہ پاکستان کسی نہ کسی طریقہ سے افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والے جنگجوﺅں کو اس بات پر راضی کریںکہ غیرملکی افواج اخراج کے دوران محفوظ رہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی ملک کے لئے فوجیں واپس بلانے کا مرحلہ نہایت حساس اور نازک مرحلہ ہوتا ہے۔ افغانستان جیسے ملک میں جہاں کی عوام اور سرزمین دونوں دشمن کے لئے ناسازگار ہیں۔ وہاں سے نکلنا غیرملکیوں کے لئے دشوار ہو گا۔ امریکا اور برطانیہ پاکستان سے توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان، طالبان جنگجوﺅں کے ساتھ جنگ چھیڑ دے اور انہیں اتنا کمزور کرے کہ ان میں غیرملکی افواج کے اخراج کی مرحلہ میں مداخلت کی سکت نہ رہے۔ یہ مغربی ممالک کی دیرینہ خواہش ہے جو اب تک ناتمام رہی ہے۔ملالہ یوسف زئی اور دیگر بچیوں پر قاتلانہ حملے کرائے گئے اور پھر پاکستان میں حکمران قیادت نے بھی اسے جواز بنا کر شمالی وزیرستان میں جنگ چھیڑنے کے لئے پارلیمان کو استعمال کرنے کی کوشش کی مگر حزب اختلاف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اس معاملہ میں محمد نواز شریف کردار موثر اور قابل تعریف ہے۔ اس کے بعد گذشتہ دنوں پشاور میں خودکش حملہ میں اے این پی کے ایک اہم عہدیدار اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کی ہلاکت کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ کی طرف سے آواز اٹھائی گئی کہ انتخابات ملتوی کرائے جائیں اور انتخابات سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتا جائے مگر پارٹی میٹنگ میں پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ انتخابات ضرور ہوں اور وقت پر ہی ہوں۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب تر ہوتا جاتا ہے۔ مغرب کے طرفدار سیاسی جماعتیں اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ آخر میں دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) رہ جاتی ہیں جو بجا طور پر ملک کی بقاءکے لئے متفکر نظر آتی ہیں۔ گذشتہ برس اکتوبر 2011ءمیں تحریک انصاف نے لاہور میں بڑا جلسہ کیا تو ان کی توپوں کا رخ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کی طرف رہا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ایم کیو ایم کی قیادت کی ہم آہنگی بھی نمایاں ہوتی گئی اور کراچی میں تحریک انصاف کے جلسہ کو کامیاب بنانے میں ایم کیو ایم کی قیادت نے اعلانیہ تعاون کیا اور اپنے کارکن بھی شرکت کے لئے بھیجے۔ روزنامہ نوائے وقت کے 31دسمبر 2011ءکی ایک خبر کے مطابق شاہ محمود قریشی کوتحریک انصاف میں شمولیت کے فوراً بعد عمران خان لے کر عرب امارات گئے جہاں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بعض اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ امریکہ انتظامیہ کو اطمینان ہوا کہ عمران خان امریکی مفادات کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔ سال بھر کے حالات نے ثابت کیا کہ تحریک انصاف کو شاید پاکستان میں انتخابات میں خاص کامیابی نہ ہو سکے کیونکہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں موجود غیرملکی کاسہ لیس تقریباً تمام کے تمام عمران خان کی جماعت تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کو 2008ءکے انتخابات میں بھی عوام نے اسی لئے ہی مسترد کیا تھا۔ لہٰذا مغربی ممالک کو عمران خان کی سیاسی کامیابی کے متوقع نتائج خاصے امید افزاءنظر نہیں آتے۔ مغربی طاقتیں ایک ایک کر کے اپنے مہرے سامنے لا رہی ہیں اور ہر طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ عین انتخابات کے قریب وقت میں، منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری کو سامنے لایا گیا ہے۔ ان کے 23دسمبر 2012ءکے لاہور کے جلسے میں ایم کیو ایم کی قیادت نے بھی شمولیت اختیار کی ہے۔ طاہرالقادری بھی کئی برسوں سے دیار غیر میں سکونت پذیر ہیں اور وہاں کی شہریت رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے اعتراف کے مطابق جو انہوں نے ایک ٹی وی کے اینکر کو انٹرویو میں کیا تھا، ان کے لاہور کے جلسے کی فنڈنگ برطانیہ میں مقیم تارکین وطن نے کی اور یہ تارکین وطن خود پاکستان تشریف لائے اور پاﺅنڈ اسٹرلنگ خرچ کر کے جلسے کو دوام بخشا، تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کی تائید حاصل رہی اور اب بھی ہے۔ اس طرح تحریک انصاف اور ایم کیو ایم دونوں جماعتوں کی قیادتوں کی تائید طاہرالقادری کی تحریک منہاج القرآن کو حاصل ہو چکی ہے۔ علامہ طاہرالقادری کے توپوں کا بظاہر رخ مسلم لیگ (ن) جس کے لیڈران کرام کی جامع مسجد ماڈل ٹاﺅن کے وہ امام رہ چکے ہیں کی طرف ہے۔ طاہرالقادری وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ آئین کی بیسویں ترمیم میں عبوری حکومت کے لئے حزب اختلاف کی قیادت سے مشورہ کی پابندی درست نہیں اور مزید فرماتے ہیں کہ ان سے اور افواج پاکستان کے سربراہ سے مشورہ کی پابندی بھی ہونی چاہئے ۔ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کے بعد کی صورت حال نے ثابت کیا ہے کہ پاک فوج کو افغان آزادی کی جنگ لڑنے والے جنگجوﺅں کے ساتھ الجھانے کی کوششوں میں ایک ہی طاقتور سیاسی جماعت، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت حائل ہوئی ہے۔ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے وزراءدہشت گردوں کو شکست دینے کی آرزو رکھتے ہیں۔ دہشت گردی وہ بلا ہے جسے بقول ایڈورڈ گبون سلطنت روما کی عظیم عسکری قوت شکست نہ دے سکی اور جب دہشت گردوں نے قسنطنطنیہ (استنبول) کی گلی کوچوں میں غارتگری شروع کی تو ہر لحاظ سے حکومت کی رٹ ختم ہو گئی اور یہ دہشت گردی سلطنت روما کے زوال کا سبب بنی۔ پاکستان کی عافیت اس میں ہے کہ غیرملکی مفاد کی اس جنگ سے کنارہ کشی اختیار کریں اور اپنے ملک کی بقاءکو یقینی بنائیں۔ جہاں تک ملک کی اندرونی سیاست کا معاملہ ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اینگلو امریکی انتظامیہ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ملک کے اندر مقبولیت سے کچھ بوکھلا سی گئی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں ایک مقبول سیاسی جماعت کی مستحکم حکومت بنے۔ دراصل ایسی سوچ ان کی غلط سوچ ہے۔ پاکستان میں اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت بنتی ہے تو یہ صورتحال برطانیہ، امریکہ باہمی تعلقات باعتماد اور مستحکم ہوں گے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنجیدہ اور بردبار رہنماﺅں کے ہاتھوں میں ہے۔ ویسے بھی پاک امریکہ مستحکم تعلقات دونوں ممالک کے حق میں بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ بہرحال پاکستان کو مصر یا لیبیا یا مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے مماثلت دینا درست نہیں۔ پاکستان میں مستحکم جمہوری حکومت ہے اور پاک فوج بھی مستحکم جمہوری پاکستان کے لئے پرعزم ہے۔ لہٰذا جنوری 2013ءمیں پاکستان میں افراتفری پھیلانے اور نئے طرح کے تماشے کرنے کی کوششیں بار آور ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان کی عوام توقع رکھتے ہیں کہ طاہرالقادری دانشمندی کا مظاہرہ کریں گے اور تصادم کی راہ اختیار کرنے سے گریز کریں گے۔