• news

اذان کی برکات


اگر بنظر غائر دیکھا جائے تواذان محض ایک رسم یا ایک صدا ہی نہیں ہے جو ہمیں نماز کے وقت سے آگاہ کردیتی ہے۔ بلکہ یہ اعلائے کلمة اللہ کا ایک مسلسل عمل بھی ہے،اور مسلمانوں کے لیے ایک ذہنی اور روحانی تربیت بھی کہ انھیں ہمیشہ اللہ کے دین کا کلمہ بلند کرنا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:....
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
اذان کے حوالے سے اس کے مختلف پہلوﺅںپر شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے بڑے خوبصورت اور حکیمانہ اسلوب سے روشنی ڈالی ہے کہ اذان ماحول میں کس طرح خیروبرکت پیدا کرتی ہے اور اس سے نحوست کا اثر کیسے زائل ہوتا ہے۔”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے،جب اذان ہونے لگتی ہے تو شیطان پراگندہ حال ہوکر بھاگتا ہے۔ تاکہ اذان کی آواز اس کے کان میں نہ پڑے۔“
چونکہ اذان دین کے شعائر میں سے ہے اور اس کو اس بات کی علامت قرار دیا گیا ہے کہ کسی قوم نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر لیا ہے۔ اس لیے اس کے کلمات کا جواب دینا سنت ہے۔ جس کا مقصد اس منزل من اللہ ہدایت کو قبول کرنے کی تصریح ہے۔ اجابت کی یہ صورت ہے کہ تکبیر اور شہادتین کے کلمات کو موذن کے ساتھ ساتھ دہرائے اور جب موذن کی زبان پر وہ کلمات آئیں جن کا مفہوم نمازکی طرف بلانا ہے تو سننے والوں کے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ لاحول ولا قوة الا باللہ جس کا مفہوم اپنے تمام قوائے ظاہر وباطن کو کمزور سمجھنا ہے۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے فضل وکرم سے اطاعت کی توفیق عطاءفرمائے،ان کلمات کے دہرانے سے حکمت یہی ہے کہ دل میںعبادت پر آمادگی کا جذبہ پیدا ہواور اس کے ساتھ کہیں عُجب اور خود بینی کا خیال اس کو بگارنے کا سبب نہ بن جائے۔ حدیث پاک میں ہے۔ ”جو کوئی اس طرح خلوص کے ساتھ اذان کا جواب دے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا“۔اذان ختم ہونے کے بعد جو دعائے ماثورہ ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بارگاہ اقدس میں درخواست کی جاتی ہے کہ (اللہ انھیں )درجات عالیہ عنایت فرمائے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دعا مانگنے والے نے صمیم قلب سے حضور کے دین کو قبول کرلیا ہے ،اور آپ کے درجات عالیہ پر فائز ہونے میں وہ اپنے لیے فخر محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ وہ آپ کو ہر ایک محبوب ترین چیز سے محبو ب تر سمجھتا ہے ۔حدیثِ شریف میں ہے:۔ ”اذان اور اقامت کے درمیان جو دعا کی جائے وہ رد نہیں کی جاتی۔“اس لیے کہ اس حالت میں دعا گو کا باطن تسلیم واطاعت کے جذبات سے معمور ہے اس لیے رحمت الہٰی اس کے شامل حال ہے۔(حجة اللہ البالغہ)

ای پیپر-دی نیشن