• news

سیکرٹری دفاع کی 3 اہم عہدوں پر تعیناتی پر وفاقی حکومت سے جواب طلب‘ سپریم کورٹ نے چیئرمین‘ ایم ڈی پی آئی اے کو 14 جنوری کو طلب کر لیا

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے پی آئی اے کرپشن کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کی بیک وقت تین اہم ترین عہدوں پر تعیناتی کے حوالے سے وفاقی حکومت سے وضاحت طلب کرتے ہوئے چیئرمین اور ایم ڈی، پی آئی اے کو آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا جبکہ پی آئی اے کے جہازوں میں نقائص اور ان کی صورتحال کے حوالے سے آئندہ سماعت پر سول ایوی ایشن سے شیک ڈاﺅن رپورٹ 14 جنوری تک طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سابق رکن قومی اسمبلی ماروی میمن اور دیگر کی درخواستوں کی سماعت کی تو پی آئی اے کے وکیل راجہ بشیر نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پی آئی اے میں اس وقت ساڑھے سترہ ہزار ملازمین ہیں، ٹھیکیدار کے ذریعے 2761 ڈیلی ویجز ملازمین خدمات سرانجام دے رہے ہیں، دنیا کے دیگر کئی ممالک میں جنرل سیلز ایجنٹ بھی بھرتی کر رکھے ہیں جس پر فاضل عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں پی آئی اے میںکی جانے والی بھرتیوں میں شفافیت نہیں ہیں۔ پی آئی اے کے وکیل نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ چیئرمین پی آئی اے اور سیکرٹری دفاع کے عہدے پر ایک ہی شخص لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین براجمان ہیں جنہیں وفاقی حکومت نے 23 اکتوبر 2012ءکو پی آئی اے کا چیئرمین مقرر کیا تھا جو اس کے ساتھ ساتھ وفاقی سیکرٹری دفاع کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے اہم عہدوں پر ایک ہی شخص کو مقرر کیا گیا ہے۔ سیکرٹری دفاع اور چیئرمین پی آئی اے الگ الگ اور فل ٹائم جابز ہیں، اسی وجہ سے تو ادارے کو نقصانات ہو رہے ہیں۔ عدالت کو مزید بتایا گیا کہ اس سال پی آئی اے کا نقصان گذشتہ سال کی نسبت بڑھ گیا ہے اور اس سال پی آئی اے کو 140 ارب خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہاکہ بادی النظر میں کوئی بھی پی آئی اے کی حالت زار کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی رپورٹ دی ہے کہ دن بدن اس کی حالت دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔ ماروی میمن نے کہاکہ پی آئی اے کی حالت بہتر نہیں۔ انہوں نے عدالت سے جہازوں کی حالت سے متعلق سول ایوی ایشن سے شیک ڈاﺅن رپورٹ منگوانے کی استدعا کی۔ عدالت کو سول ایوی ایشن کے لیگل ایڈوائزر عبیدالرحمان عباسی نے بتایا کہ سول ایوی ایشن رولز کے تحت جہازوں کی چیکنگ کرتا ہے اور کسی جہاز میں نقص پایا جاتا ہے تو ہم اس جہاز کو گراﺅنڈ کر دیتے ہیں، ہم سیفٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور سول ایوی ایشن سیفٹی میں دنیا میں دسویں نمبر پر رہا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14 جنوری تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں چیئرمین اور ایم ڈی کے عہدوں پر کل وقتی تقرری نہ کرنے پر سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین اور کیپٹن یونس کو نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے عبوری مختصر حکم میں قرار دیا کہ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کو ایک سو چالیس ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے جس میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سو ارب روپے کے نقصان کا اضافہ ہوا۔ اٹھائیس طیاروں کے لئے پانچ سو اکیاون پائلٹ اور سترہ ہزار سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں۔ پروازوں کی منزلیں سینتالیس سے کم ہوکر سینتیس اور ممالک کی تعداد بیالیس سے کم ہو کر پچیس رہ گئی ہے۔ ٹکٹوں کی فروخت کے لئے ایجنٹس کے تقرر میں شفافیت دکھائی نہیں دیتی، شیک ڈاﺅن رپورٹ میں بھی خسارہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن پی آئی اے کے حالات سدھارنے کے لئے پانچ سال میں کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دی۔ ایم ڈی کے عہدوں پر بھی پائلٹس تعینات کئے جاتے رہے ہیں جو بیک وقت فلائنگ بھی کرتے ہیں۔ اس لئے انتظامی بوجھ اٹھانا ان کے لئے ممکن نہیں رہتا۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ پی آئی اے کے خسارے اور حالات نہ سدھرنے کی وجہ حساس عہدوں پر کل وقتی تعیناتی کا نہ ہونا ہے۔ حکومت کو بذریعہ سیکرٹری دفاع نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ وہ اس امر کی وضاحت کریں کہ پی آئی اے کی حالت سدھارنے کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی مےں بنچ نے پی آئی اے میں بے ضابطگیوں سے تعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ 3 کپتان چلے بھی جائیں گے تو کیا پی آئی اے بند ہو جائے گا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے عدالت کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ اس دنیا میں کوئی ناگزیر نہیں۔ ڈاکٹر قدیر نہیں تو کیا ہمارا ایٹمی پروگرام نہیں چل رہا۔ ہم نے سنا ہے کہ ایٹمی پروگرام پہلے سے بہتر چل رہا ہے۔ چیف جسٹس ریٹائر ہو جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا آجاتا ہے۔ مسافر انشورڈ ہوں گے۔ تاخیر پر پیسے دینے پڑے تو سب درست ہو جائے گا۔ مسافروں کو تاخیر کی وجہ سے کاروبار میں نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پی آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ پی آئی اے کی بدحالی کی وجہ کیا ہے؟ جسٹس گلزار نے کہا کہ سب سے بڑی بیماری آپ کا قرضہ ہے جو آپ مزید لینے جا رہے ہیں۔ اتنا قرضہ کہاں سے واپس کریں گے۔ ماروی میمن نے عدالت کو بتایا کہ پی آئی اے نے رپورٹ میں حکومت سے 25 ارب مزید مانگے ہیں۔ پی آئی اے اتنا پیسہ کہاں سے واپس کرے گا۔ ایک کرپٹ ائر لائن کو اتنے پیسے دینا کیا مناسب ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا 2008ءمیں ترکش ایئر لائنز کے ساتھ معاہدے کے وقت ایم ڈی کون تھا؟ پی آئی اے انتظامیہ نے جواب دیا 2008ءمیں ایم ڈی پی آئی اے کے کیپٹن اعجاز ہارون تھے۔ وکیل پی آئی اے نے کہا کہ کرپشن کرنے والوں کے کیسز نیب کو بھیجے جائیں گے۔ اعلیٰ افسروں پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے جو کرپشن کا جائزہ لے گی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا میں نے تو پی آئی اے سے لاہور جانا بند کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں پائلٹس کا ڈیوٹی روسٹر پیش کیا گیا۔ پی آئی اے انتظامیہ نے بتایا کہ 28 جہازوں کے لئے 600 پائلٹ بھرتی کر چکے ہیں۔ ہر پائلٹ کے لئے 8 گھنٹے کی مسلسل فلائٹ کے بعد آرام لازمی ہے۔ ترک ایئر لائن سے مسافروں کو سیٹوں کے کوٹے پر معاہدہ ہے۔ جسٹس عظمت نے استفسار کیا ترک ایئر لائن سے معاہدہ کرنے والے چیئرمین کہاں ہیں؟ پی آئی اے انتظامیہ نے جواب دیا کہ وہ آج کل ترکی کی ایئر لائن میں ملازم ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی ا ے کا چیئرمین ملک کا سیکرٹری دفاع بھی ہے، پی آئی اے یا محکمہ دفاع پارٹ ٹائم نوکری نہیں، پی آئی اے کو فل ٹائم اور مستعد چیئرمین کی ضرورت ہے۔ وکیل پی آئی اے نے کہا کہ 45 ملکوں میں ہوائی سفر کی سہولت اب صرف 27 ملکوں تک رہ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق چند حقائق دیکھنے سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ 40 جہازوں کا فلیٹ 28 پر آ گیا۔ عدالت نے چیئرمین اور ایم ڈی پی آئی اے کو طلب کر لیا۔ عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین اور کیپٹن یونس 14 جنوری کو عدالت میں پیش ہو کر اپنے عہدوں کی وضاحت کریں، ایم ڈی پی آئی اے کیسے بطور پائلٹ جہاز اڑا سکتے ہیں؟ سماعت 14 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن