2013ءکا سورج پاکستانی قوم کیلئے امیدیں اور وسوسے لے کر طلوع ہوا ہے
لاہور (رپورٹ: فرخ سعید خواجہ) 31دسمبر کا سورج غروب ہو چکا اور 2013ءکے پہلے دن کا سورج پاکستانی قوم کے لئے امیدیں اور وسوسے لے کر طلوع ہوا ہے کہ آیا پاکستان میں جمہوری نظام اپنا تسلسل برقرار رکھ سکے گا یا غیرملکی آقاﺅں کی خواہشات پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ریشہ خطمی ہونے کی صورت میں ملک کو ایک مرتبہ پھر غیریقینی صورت حال سے دوچار کر دے گا۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے دینی جماعتوں کو سبق سکھانے کے لئے ایک لسانی تنظیم بنوائی اور چند ہی برسوں میں جب اس تنظیم نے پر پرزے نکال لئے تو اپنا سر تھام لیا۔ اب طالبان سے نمٹنے کے لئے اہلسنت جماعت کے ایک عالم دین اور ایک لسانی تظنیم کو ڈھال بنانے کی منصوبہ بندی ہے۔ امریکہ افغانستان سے اگلے برس نکل جائے گا اور وہ اپنے اتحادیوں سمیت طالبان کو مقامی لوگوں سے لڑوانے کا خواہاں ہے۔ اس کی نیت صاف ظاہر ہے لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان کی آلہ کار بنتی ہے کہ نہیں اس پر غیرملکیوں کے منصوبے کی کامیابی کا انحصار ہے۔ پاکستانی قوم موجودہ اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے پر نئے الیکشن کی منتظر تھی۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اور اپوزیشن کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی جماعتیں آنے والے عام انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہیں تھیں کہ اچانک کینیڈا سے ڈاکٹر طاہرالقادری کا نعرہ مستانہ بلند ہوا۔ ان کے لاہور میں مینار پاکستان تلے کامیاب جلسہ عام نے بحث کا ایک نیا دروازہ کھول دیا لیکن جونہی الطاف حسین کی بھی ان کی آواز میں آواز شامل ہوئی، وسوسے اور خدشات بھی بڑھ گئے۔ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف پچھلے ماہ تک کہتے رہے ہیں کہ الیکشن ہوں گے اور انہیں اس میں خلل ڈالے جانے کی کسی طرف سے کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی مگر اب لازماً انہیں بھی اپنی رائے بدلنی ہو گی۔ لگتا ہے آنے والے الیکشن میں ان کی کامیابی کے امکانات نے ہی عام انتخابات کے انعقاد کی راہ کھوٹی کر دی ہے۔
وسوسے/ امیدیں