• news

نفسیاتی بیماریوں کی بڑی وجہ مہنگائی، بیروزگاری ہے، قابل علاج ہیں: ایوان وقت مذاکرہ

لاہور (سیف اللہ سپرا) پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور ڈپریشن بڑھ رہا ہے جس سے لوگ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ نفسیاتی اور ذہنی بیماریاں بالکل ایسے ہی ہیں جیسے شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی بیماریاں ہیں، نفسیاتی بیماریاں قابل علاج ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان وقت کے زیر اہتمام ”ذہنی امراض اور ان کا علاج“ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے میں کیا۔ شرکاءمیں صدر مینٹل ہیلتھ فاﺅنڈیشن پاکستان پروفیسر ڈاکٹر آئی اے کے ترین، ڈاکٹر پروفیسر تنویر رانا، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی تاحیات پروفیسر ڈاکٹر خالدہ ترین، ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم ترین اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ ذہنی امراض کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف شامل تھے۔ ڈاکٹر تنویر رانا نے کہا کہ پاکستان میں جو بے یقینی، خوف اور معاشی مسائل ہیں اس کی وجہ سے ڈپریشن کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے جس سے لوگ خودکشیاں کر رے ہیں۔ اس کا بہتر حل تو یہ ہے کہ حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرے، لوگوں میں خوشحالی آئے تو لوگ خودکشیوں کا نہیں سوچیں گے۔ صدر مینٹل ہیلتھ فاﺅنڈیشن پاکستان پروفیسر ڈاکٹر آئی اے کے ترین نے کہا کہ ہمارے ملک میں جو غیر یقینی صورتحال ہے اس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے، لوگ علاج کی طرف نہیں آتے حالانکہ یہ بیماریاں پاگل پن بالکل نہیں اور سو فیصد قابل علاج ہیں۔ ڈاکٹر خالدہ ترین نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل بہت سے مسائل کا شکار ہو رہی ہے۔ ہمارے سکولوں میں جس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے وہ زندگی کے مسائل کو سمجھنے یا ان پر عبور حاصل کرنے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرتی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ بھی افادیت سے ہٹ کر غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے والدین ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم ترین نے کہا کہ پاکستانیوں میں بہت صلاحیت ہے لیکن ہمیں اپنی نئی نسل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے خاص طور پر سب والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہئے۔ ڈاکٹر آفتاب آصف نے کہا کہ جسمانی بیماریوں کے مقابلے میں ذہن کی بیماریوں کے متعلق لوگوں کو کم انفارمیشن پہنچتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے نفسیاتی بیماریوں سے متعلق بتانا بھی ضروری ہے۔ ایم بی بی ایس میں بھی ان مضامین پر توجہ دینی چاہئے۔ نفسیاتی بیماریاں قابل علاج ہیں، لوگوں کو ڈاکٹروں سے رجوع کرنا چاہئے۔ 

ای پیپر-دی نیشن