ڈاکٹر خان اور ڈاکٹر طاہر اُلقادری !
مرزا داغ دہلوی نے کہا تھا ۔۔۔
” لب ، عاشق ِ بِیمار پہ ، کھولا نہیں جاتا
دم بند ، مسِیحا کا ہے ، بولا نہیں جاتا “
لیکن، داغ کے اِس فلسفے کا اطلاق‘ علاّمہ طاہر اُلقادری کی مسِیحائی پر نہیں ہوتا۔ القادری صاحب ،بے شک قِسطوں میں ہی سہی، مسِیحا دم اور مسِیحا نفس، ثابت ہو رہے ہیں اور اُن کا یہ اعجاز مسِیحائی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں، سب سے زیادہ خبروں میں ہیں۔ ”پیر الطاف حسین“۔ بھی، جو لندن میں بیٹھ کر، اپنی۔ ”روحانیت“۔ سے پاکستان میں ایم کیو ایم چلاتے ہیں، القادری صاحب کی مسِیحائی کے زیرِ اثر ہو گئے اور وہ اُس پارلیمنٹ کو۔ ”جُھرلو پارلیمنٹ“۔ قرار دے رہے ہیں، جِس میں پانچ سال سے ایم کیو ایم مزے لے رہی ہے۔ شریک اقتدار ہے۔
ایم کیو ایم اور اُس کی قیادت‘ گویا‘ نئے مسِیحا کے انتظار میں تھی اور اب۔ ”اے آمدنتِ باعثِ آبادی ما“۔ کا نعرہ لگا کر‘ القادری صاحب کے شارٹ مارچ میں‘ دامے، دِرمے، قدمے، سُخنے، شریک ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ پانچ سال تک منتخب پارلیمنٹ میں رہی اور اب۔ ”عوامی پارلیمنٹ“۔ میں کلیدی کردار ادا کرنے جا رہی ہے۔
”دس اُنگلیاں‘ کلِید ہیں‘ آ ٹھوں بہشت کی“
صدر زرداری کی ایک اور اتحادی جماعت‘ مسلم لیگ ق کی قیادت نے بھی، لاہور میں القادری صاحب کے گھر جا کر کہا کہ۔ ”طاہر اُلقادری ایک۔ ”نئی سوچ“۔ کے ساتھ میدان میں اُترے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ۔ ”ڈاکٹر طاہر اُلقادری آئین کی پاسداری چاہتے ہیں اور ہم ظُلم کے نظام کے خلاف اُن کا ساتھ دیں گے“۔ نائب وزیرِاعظم چودھری پرویز الہیٰ نے کہا کہ۔ ”ڈاکٹر طاہر اُلقادری نے جِس نیک مِشن کا آغاز کیا ہے، اُس سے جمہوریت کو فائدہ ہو گا“۔ اِس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے اپنا مﺅقف دُہرایا اور کہا کہ۔ ”اسلام آباد میں، عدلیہ اور فوج سمیت تمام۔"Stakeholders" کے ساتھ مشاورت سے نگران حکومت کے قیام کا فیصلہ ہو گا“۔
یوں تو۔"Stakeholders" کی ترکیب کئی معنوں میں استعمال ہوتی ہے، لیکن عُرفِ عام میں اِس سے مُراد ہے۔ وہ اشخاص جو کسی۔"Buisness" ۔ (پیشہ‘ عام مشغلہ یا کاروبار) میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں“۔ عدلیہ کا بزنس‘ عوام و خواص کو انصاف مہیا کرنا ہے اور فوج کا سرحدوں کی حفاظت‘ لیکن کبھی کبھی یہ دونوں ادارے ا پنے اپنے "Buisness"سے ہٹ کر۔ ”کاروبارِ سیاست“۔ میں بھی شریک رہے ہیں۔ فوج کو ہمارے سیاستدانوں کی طرف سے ہی دعوت دی جاتی رہی ہے کہ۔ ”چھیتی بوڑھِیں‘ وے طبِیبا‘ نئیں تاں‘ مَیں مر گئی آ“۔ پھر طبیب کی اپنی مرضی کہ وہ مریض کو جلد صحت یاب کر دے یا اُس کی بیماری کو طُول دے دے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اگر روایتی طبیب کا کردار ادا کرنا ہوتا تو کئی مواقع تھے، لیکن وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کبھی اشارةً بھی عِندیہ نہیں دیا کہ‘ وہ پاکستان میں بنگلہ دیش کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، اِس لحاظ سے طاہر اُلقادری خوامخواہ‘ فوج اور عدلیہ کو، کاروبارِ سیاست کا۔ ”سٹیک ہولڈرز“ قرار دے رہے ہیں۔ گڑے مُردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں لیکن، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق‘ جنرل پرویز مشرف کی گرفتارِ محبت اور۔ ”آٹھ بہشت“۔ کے لذائذ سے لُطف اندوز بھی ہوتی رہِیں۔ چودھری شجاعت حسین‘ وزارت‘ عُظمیٰ کی۔ ”صاحباں“۔ سے ہمکنار رہے اور چودھری پرویز الہیٰ۔"Till The Last Drop "۔ ”پڑھا لِکھا پنجاب“۔ کے وزیرِاعلیٰ اور نائب وزیراعظم آج کل طاہر اُلقادری نے بھی (شریف برادران سے بُغض کی وجہ سے) جنرل پرویز مشرف کو مسِیحا قرار دے کر‘ وزارتِ عُظمیٰ کی عرضی ڈال دی‘ لیکن بقول شاعر۔
” تحریر‘ یار نے نہ پڑھی‘ میری مُدتّوں
رکھّے ہی رکھّے‘ طاق پہ‘ عرضی گُزر گئی“
پھِر علاّمہ طاہر القادری‘ اپنی۔ ”پاکستان عوامی تحریک “۔ کی قومی اسمبلی کی اکلوتی نشِست سے مستعفی ہو کر کینیڈا چلے گئے‘ اور کینیڈا کی شہریت حاصل کر لینے کے باوجود موصوف، پاکستانی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ القادری صاحب‘ ہر وقت‘ ہر جگہ اور ہر موضوع پر بے تُکان بولتے ہیں۔ بولتے رہتے ہیں‘ حالانکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ۔ ”پہلے بات کو تولو اور پھر مُنہ سے بولو“۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں نگران وزیرِاعظم بننے کو تیار ہوں“۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ۔ ”حاشا وکلّا! میں کسی عُہدے کا طلب گار نہیں ہوں“۔ کبھی کہتے ہیں۔ ”میرا تعلق۔"White House"۔ سے نہیں، بلکہ۔ ” گُنبدِ خضرا“۔ سے ہے اور عوام کو یقین دلانے کے لئے بار بار قسمیں کھاتے ہیں۔ جنرل مشرف اور پھر آصف زرداری سے اتحاد کرتے وقت‘ قسمیں تو ایم کیو ایم اور چودھری برادران نے بھی کھائی ہوں گی‘ لیکن اب علاّمہ طاہر اُلقادری کے ساتھ قدم سے قدم مِلانے کا وعدہ۔ صدر زرداری بھی کیا سوچتے ہوں گے کہ....
”توڑ کر قسمیں‘ سِتم گرنے‘ عدُوسے جوڑ لِیں
کچھ نرالے ہیں‘ بُت ِ پَیماشِکن کے‘ توڑ جوڑ“
ہمارے یہاں سیاست میں توڑ جوڑ، داو¿ پیچ ، داو¿ گھات، اور سازش کا۔” تڑکا“۔ ہر دور میں لگایا جاتا ہے ۔ پہلا بڑا ۔” تڑکا“،23مارچ 1956ءکے آئین کے تحت صدرِپاکستان منتخب ہو کر ، میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے لگایا جب اُس نے 30اپریل1956ءکو اپنے یارِ غار۔ اسفند یار ولی خان کے دادا۔ سُرخ پوش لیڈر خان عبدالغفار خان کے بھائی ۔ ڈاکٹر عبدالجبّار خان المعروف ڈاکٹر خان ، کی قیادت میں ، راتوں رات۔”ری پبلکن پارٹی “۔ بنوائی اور انہیں وزیرِاعلیٰ مغربی پاکستان بنوا دیا ۔ ڈاکٹر خان وزیرِ اعلیٰ بنے تو ، اُس وقت مسلم لیگ کے صدر سردار عبدالرّب نشتر نے کہا تھا....
” نیرنگیءسیاست ِ دَوراں ، تو دیکھئے
منزل انہیں مِلی ، جو شریکِ سفر نہ تھے “
ڈاکٹر خان صاحب کو مئی 1958ءمیں ایک معطّل پٹواری عطا محمد نے ،وزیرِ اعلیٰ ہاﺅس لاہور میں، گھُس کر قتل کر دیا ۔ شیخ انوار اُلحق ( جنہوں نے بعد میں سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کی توثیق کی تھی ) اُس وقت لاہور میں سیشن جج تھے۔انہوں نے ڈاکٹر خان کے قاتل کو سزائے موت دی ۔ پھر ری پبلکن پارٹی بِکھر گئی ۔ ڈاکٹر طاہراُلقادری کی قیادت میں ، پارلیمنٹ سے باہر ایک۔ ” نئی ری پبلکن پارٹی “۔ بن رہی ہے ، لیکن اسلام آبادوالے، اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے ۔ کیا اِس لئے کہ اگر طاہر اُلقادری 40لاکھ کا لشکر لے کر ، اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں اور کُچھ لوگ دہشت گردی یا سیاست گردی کا شکار ہو جائیں تو، انہیں عام انتخابات ملتوی کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کا بہانہ مِل سکتا ہے ۔ ڈاکٹر خان کے قتل کے 5 ماہ بعد تو اُس دور کے"Stakeholders"، صدر سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے مارشل لاءنافذ کر دیا تھا ، اب کیا ہو گا ؟ ۔ اَِس کا عِلم تو ۔” گُنبدِ خضرا “ ۔ سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ڈاکٹر طاہر اُلقادری کو بھی نہیں !