آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی ‘ پاک فوج نے اندرونی خطرات کو نمبر ون خطرہ قرار دیدیا
اسلام آباد (بی بی سی اردو ڈاٹ کام + نیٹ نیوز) پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گیارہ سال بعد اپنی آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار ے دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستانی فوج کی جانب سے شائع کردہ نئے فوجی نظرئیے یا ”آرمی ڈاکٹرائن“ میں ملک کی مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری شدت پسندوں کی کارروائیوں اور بعض تنظیموں کی جانب سے اداروں اور شہریوں پر بم حملوں کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن فوج اپنی جنگی تیاریوں اور استعدادِ کار کے جائزے اور اسے درست سمت میں رکھنے کے لیے شائع کرتی ہے۔ اس بار اس ”سبز کتاب“ (گرین بک) میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے جسے ”سب کنونشنل وار فیئر“ یا نیم روایتی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ کے کرداروں میں نام لیے بغیر بعض تنظیموں اور عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس ذیل میں مغربی سرحد کے اس پار سے ہونے والی کارروائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ دفاعی مبصرین مغربی سرحد اور اس کے قریب پیدا ہونے والے ان اندرونی و بیرونی خطرات کا ادراک کرنے کو پاکستان کی فوجی پالیسی میں بنیادی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے اس بارے میں کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ پاکستانی فوج نے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ اب ملک کو اصل خطرہ اندرونی ہے جس کا ارتکاز مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہے۔ طلعت مسعود نے کہا کہ فوجی نظرئیے یا ڈاکٹرائن میں اس تبدیلی سے پتہ چلتا ہے کہ فوج اب اپنی آپریشنل تیاریوں اور منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت اس ”نیم روایتی جنگ“ کو دے رہی ہے جس کا ہدف ممکنہ طور پر تحریکِ طالبان پاکستان اور افغان سرحد کے اس پار ان کے اتحادی ہیں۔ اس فوجی نظرئیے کی تیاری میں کردار ادا کرنے والے ایک سینئر فوجی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ نیم روایتی جنگ کے نام سے نیا باب شامل کرنے کا مقصد فوج کو اس نئے خطرے سے لڑنے کے لیے تیار کرنا اور اس کے لیے ضروری عوامی اور سیاسی حمایت کا حصول ہے۔ سبز رنگ کی یہ کتاب (گرین بک) دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جسے متعلقہ فوجی کمانڈروں میں تقسیم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دستاویز کو عوام تک پہنچانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور مناسب وقت آنے پر اسے فوج کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے گا۔ اس ”سبزکتاب“ میں کہا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں اور عناصر پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی غرض سے قبائلی اور شہری علاقوں میں دہشت گردی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ’یہ حملے انتہائی درجے کی سفاک اور مہلک منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جا رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اسی درجے کی تیاریوں اور جوابی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ غیر روایتی جنگ کے باب میں ”پراکسی وار“ کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں تشدد کی وجہ یہ عنصر بھی ہے۔ تاہم اس ذیل میں کسی ملک کا نام تحریر نہیں کیا گیا۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا باضابطہ اعتراف اور دستاویزی شکل میں ان خطرات کو شائع کرنے سے فوج کی صلاحیتوں کو ان کے خلاف بہتر طور پر استعمال کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ ان فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ مغربی سرحدوں سے کسی سنگین خطرے کی عدم موجودگی اور دفاعی افواج کا تمام ارتکاز مشرقی سرحدوں کی جانب ہونے کے باعث پاکستانی مسلح افواج اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی غرض سے آنے والے امریکی ہیلی کاپٹروں کی بروقت نشاندہی نہیں کر سکیں۔ اس افسر کے مطابق ایبٹ آباد کمشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے فضائی افواج کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر فضائیہ کے اثاثے اس تعداد میں موجود نہیں کہ وہ اس طرح کی کارروائی کی بروقت اطلاع دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی فوج کی توجہ کا محور مشرقی سرحد ہی رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بیان نے پاکستان کے دفاعی پالیسی سازوں کو اپنی پالیسی میں اس بنیادی تبدیلی کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ، فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ نومبر 2011ء میں سلالہ کے مقام پر پاکستانی فوج پر نیٹو افواج کے حملے کو روکنے اور جوابی کارروائی کے لیے بھی مقامی کمانڈرز کے پاس اختیارات اور معقول اثاثے نہ ہونا بھی اس نئی ”غیر روایتی جنگ“ کی اصطلاح کی تخلیق کا باعث بنا ہے۔