• news
  • image

اب جمہوریت پر کوئی شبخون نہیں مار سکتا‘ عوام انتشار پھیلانے والی سیاسی جماعت کی حمایت نہ کریں : چیف جسٹس

لاہور (دی نیشن رپورٹ + وقائع نگار خصوصی + اپنے نامہ نگار سے) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے حکومت کا انتخاب کریں۔ عوام ملک میں انتشار پھیلانے والی سیاسی جماعت کی حمایت نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست سے وفاداری اور پاسداری ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور جو ملک کے وفادار نہیں ان کے لئے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ آئین کی پاسداری ملک میں وقتی طور پر رہنے والوں پر بھی لازم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اب کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے انتشار پیدا ہو۔ کسی کو جمہوریت کے خلاف سازشیں نہیں کرنے دیں گے۔ انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر آنے والے لوگ ہی ملک چلائیں گے، عوام میں اپنے حقوق کا شعور پیدا ہو چکا ہے، اب وہ اپنے حقوق کے دفاع کے اہل ہیں یہی وجہ ہے کہ اب کوئی جمہوریت پر شبخون نہیں مار سکتا، صرف منتخب نمائندوں کو ملک چلانے کا حق حاصل ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔ وہ وقت گذر گیا جب عدالتیں ریاستی اداروں کی ضرورتیں مدنظر رکھ کر فیصلے دیتی تھیں، اب صرف ایک ہی رہنما اصول باقی رہ گیا ہے کہ آئین اور دیگر قوانین ہی انصاف کی ترجیح کی بنیاد ہوں گے۔ جمہوریت کی جانب اب کوئی نظر نہیں اٹھا سکتا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار لاہور بار ایسوسی ایشن کے سالانہ ڈنر میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مارچ 2009ءکے بعد پاکستان ایک نیا ملک ہے جہاں عوام کو قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی سے روشناس کروا دیا گیا ہے، یہ دونوں اصول ملک میں تمام اقدامات کی درستگی کو جانچنے کا معیار بن چکے ہیں، اعلیٰ عدالتوں کے موجودہ ور میں بہت سے تاریخ ساز فیصلے دئیے جن سب میں ایک ہی مشترکہ پیغام تھا کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 37 (ڈی) کے تحت ریاست پر لازم ہے کہ وہ عوام کو بطور احسان نہیں بلکہ ان کے بنیادی حق کے طور پر سستا اور فوری انصاف فراہم کرے۔ آج جو ماضی کے مقابلے میں ہمیں کامیابی نظر آتی ہے وہ خودمختار عدلیہ کو اس کے جائز مقام پر بحال کر کے حاصل کی گئی۔ بدقسمتی سے حکومت نے ملک کے عدالتی نظام کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے یا مضبوطی لانے کے لئے خاطرخواہ انتظامات نہیں کئے۔ اس منزل کے حصول میں وکلا اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 2 (اے) میں واضح طو ر پر لکھا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی حق حکمرانی رکھتے ہیں۔ ”قانون سب کے لئے برابر“ کا پیغام اصول قانون کی بنیاد بن چکا ہے۔ اسی اصول کے تحت حکومتی اداروں میں خورد برد ہونے والے اربوں روپے عدالتی مداخلت سے برآمد کرائے گئے۔ اس اصول کو بلاتمیز عہدہ اور رتبہ لاگو کیا گیا۔ گمشدہ افراد کے مقدمے میں کوئی لیت و لعل نہیں سنی گئی، فیصلہ سناتے ہوئے صرف قانون کو مدنظر رکھا گیا۔ وہ وقت گزر گیا جب عدالتیں ریاستی اداروں کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے دیتی تھی۔ اب صرف آئین و قانون ہی ملک میں انصاف کی ترجیح ہوں گے۔ اب وقت ہے کہ ریاست کے دیگر ادارے اور محکمے بھی اپنے روزمرہ فرائض کی انجام دہی میں وقت کی اہمیت کو سمجھیں۔ اعلیٰ عدالتوں نے اپنے فیصلوں سے دیگر عدالتوں کو یہ اعتماد مہیا کیا کہ آزادانہ اور منصفانہ طور پر آئینی اقدار کو لے کر آگے چلیں۔ اگر دوسرے ادارے اس کی تقلید کریں تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو گی۔ قانون کی حکمرانی کے اصول کا سختی سے اطلاق اور آئینی ذمہ داریوں کا ادراک عوام کو بااختیار کرے گا۔ وہ خود کو اس نظام کا حصہ سمجھیں گے۔ آرٹیکل 17 کے تحت شہریوں کا بنیادی حق ہے کہ ووٹ کے ذریعے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ آرٹیکل 5 آئین کی کسی بھی طرح کی خلاف ورزی کی پابندی عائد کرتا ہے، عوام کے حقوق سے انکار اور قانون کے نفاذ میں تفریق سے عوام میں مایوسی پھیلے گی۔ خدشہ ہے کہ ملک دشمن عناصر مذہبی اشتعال پیدا کر کے اور شدت پسند نظریات کو فروغ دے کر معصوم لوگوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کریں گے۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کے لئے وکلا تحریک نے اہم ترین کردار ادا کیا جس کا اعتراف بیرون ملک بھی کیا گیا اور 18ویں ترمیم کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی نے بھی تحریری طور پر کیا جواب ایک آئینی دستاویز ہے۔ وکلا کے تعاون سے مقدمات جلد نمٹانے کا ہدف حاصل کیا گیا۔ عوام اب بہتر حکمرانی اور انفرادی و اجتماعی سلامتی کے بہترین مواقع چاہتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کی ہر حال میں ضمانت دی جائے۔ پہلے آئین کی کتابوں تک بنیادی حقوق محدود تھے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اب عوام کو ان کے بنیادی حقوق ان کی دہلیز پر بطور احسان نہیں بلکہ بطور حق فراہم کئے جاتے ہیں، آئین ان حقوق اور آزادیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ریاست پر لازم ہے کہ وہ معاشرے سے بلامعاوضہ جبری مشقت کا خاتمہ کرے، شہریوں کی عزتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، عوام کو ہر پہلو سے قانون میں دی گئی آزادی ہو، اقلیتوں اور خواتین کا تحفظ یقینی ہو، آئین کے مخصوص احکامات کے تحت عدالت عظمیٰ کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ان حقوق کی خلاف ورزی پر کارروائی کرے، عوام سستے اور فوری انصاف کی توقع رکھتے ہیں، عوام کی بڑھتی ہوئی امیدوں کے پیش نظر عدلیہ کو ایک ادارے کے طور پر ملک میں رائج عدالتی نظام کے مسائل سے نمٹنے کیلئے مربوط نظام ترتیب دینا ہو گا۔ اسی لئے عدلیہ کی بحالی کے بعد قومی قانون ساز کمیٹی برائے انصاف کو بحال کیا گیا، تمام سطح پر مذاکرات اور سفارشات کے بعد جون 2009ءمیں قومی پالیسی برائے انصاف متعارف کرائی گئی، قومی پالیسی اس وقت کے تقاضوں کے مطابق بنائی گئی تھی جو ہمیشہ مسلسل نظرثانی کے عمل سے گزرتی ہے۔ وکلا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کریں گے، عدلیہ نے عدالتوں کی صلاحیت بڑھانے کیلئے ازخود اقدامات کئے، مگربدقسمتی سے حکومت نے عدالتی نظام کی مضبوطی کیلئے کردار ادا نہیں کیا، آبادی میں اضافے کے باعث مقدمات کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، پنجاب میں ایک جج کو 200 تک روزانہ مقدمے سننا پڑتے ہیں۔ گذشتہ سال کی نسبت اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ انہوں نے وکلا برادری پر زور دیا کہ وہ نظام نظام عدل مضبوط بنانے میں کردار ادا کریں۔ ہم باقاعدگی سے قومی کانفرنس برائے انصاف منعقد کرا رہے ہیں، قومی عدالتی پالیسی، برائے انصاف نظرثانی کا اہم پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے، ایسی ہی آئندہ کانفرنس اپریل 2013ءمیں ہو گی۔ وکلا تحریک کے باعث ایک آمر کو گھر جانا پڑا، وکلا تحریک نے ہی ایک آمر کے غیرآئینی اقدامات کو روکا، جمہوری اقدار کے نفاذ کے لئے وکال کا کردار اہم ہے، جمہوریت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے، اسی تبدیلی کے باعث آج ملک میں جمہوریت چل رہی ہے اور اسمبلیاں کام کر رہی ہیں، آزاد عدلیہ کام کر رہی ہے، وکلا تحریک آئندہ نسلوں کے لئے مثال ہے، عدالتیں عوام کے حقوق کے نفاذ کو لازم بنانے کیلئے بااختیار ہیں، آئین کے مخصوص احکامات کے تحت عدالت عظمیٰ کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ان حقوق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کرے۔ ملک کی بہتری کے لئے تحریک کا آغاز ہمیشہ لاہور سے ہوا، لاہور کے وکلا نے عدلیہ بحالی تحریک میں بے پناہ قربانیاں دیں، پاکستان میں تبدیلی آئی ہے، جمہوریت کا دور دورہ ہے، ملک میں تبدیلی کی وجہ سے اسمبلیاں کام کر رہی ہیں۔ وکلا تحریک کی اہمیت معاشرے، میڈیا اور اسمبلی نے بھی تسلیم کی۔ 2008ءکے الیکشن کے بعد ڈکٹیٹر کو کرسی چھوڑنا پڑی۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کو د نیا بھر میں سراہا گیا، وکلا کی اس تحریک کے باعث آمر کو اقتدار چھوڑنا پڑا، عدلیہ کا جائز مقام بحال کرایا گیا، عوام اب بہتر حکمرانی، انفرادی اور اجتماعی سلامتی کے بہترین مواقع چاہتے ہیں، آئین کے مطابق اقتدار منتخب نمائندوں کا ضامن ہے، آئین عوام کے حقوق کا محافظ ہے، عدلیہ بحالی کی تحریک سے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ ہر شخص پر آئین کی پاسداری لازم ہے، آئین کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہئے۔ آئین کے تحت حکمرانی صرف منتخب نمائندوں کے ذریعے ہو گی۔ ہم نے اس قوم، وکلا کو اس بات کی یقین دہانی کرا دی ہے کہ ملک اور اداروں کی مضبوطی اور قیام صرف اور صرف عدلیہ کے قیام میںہی ہے، آئین عوام کے حقوق کا ضامن ہے تاہم عدلیہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں اگر ان کی وفاداری مشکوک ہو یا ملک کے بنیادی اور اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو انہیں تحفظ کا حق حاصل نہیں۔ مزید برآں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پُرجوش اجتماع نے وکلا تحریک کی یاد تازہ کر دی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ایک ”انکار“ پر جس قدر وکلا اور شہریوں نے انہیں سراہا آج 3 سال گزرنے کے باوجود عدلیہ کی آزادی کیلئے وہی جوش و خروش نظر آ رہا ہے۔ آزاد عدلیہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے پوری دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس افتخار چودھری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”جہاں دانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی“ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے ہمیں ایک منزل دکھائی وہ منزل ہے سستا اور فوری انصاف، ایسا انصاف جس میں خوف خدا ہو۔ انصاف کی فراہمی سے ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک وقت میں لاہور بدنام ہو گیا تھا ججز یہاں نہیں آتے تھے کہ لاہور والے لڑتے ہیں آج لاہور ایسا ہے کہ سارے ججز یہاں آنا چاہتے ہیں، اچھے ججوں اور اچھے وکیلوں سے سستا اور فوری انصاف ممکن ہے۔ماتحت عدالتوں میں کیسوں کا ٹرائل منصفانہ ہو تو فریقین اگلے فورم پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان میں زیرالتوا کیسوں کی تعداد 14 لاکھ کے قریب ہے جن میں صرف 11 لاکھ پنجاب کے ہیں۔ وکلا کی محنت سے ہی مقدمہ بازی ختم ہو سکتی ہے۔ عدلیہ صحیح چلے گی تو دوسرے ادارے بھی ہمیں دیکھ کر صحیح چلیں گے۔ وکلا اس ملک کی ایجنسیاں ہیں، جو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں، انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار کا نعرہ لگایا۔ لاہور بار کے صدر ذوالفقار چودھری نے اپنے خطاب میں کہاکہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اہم ملکی معاملات میں ازخود نوٹس لے کر قوم پر احسان کیا ہے ان کیسوں میں سٹیل مل کی نج کاری کا کیس بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس کے یہ اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ان اقدامات پر چیف جسٹس کو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بہت سے چیف جسٹس آئے لیکن افتخار چودھری کے ایک انکار نے دنیا کے لئے مثال قائم کر دی ہے۔ انہوں نے کہاکہ لاہور کی عدالتیں پورے شہر میں بکھری ہوئی ہیں جس سے وکلا اور ججز کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا کہ ان عدالتوں کو سیکرٹریٹ بلڈنگ اور ضلع کچہری میں یکجا کر دیا جائے۔ انہوں نے ججوں کی تعداد بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا۔ لاہور بار ایشیا کی سب سے بڑی بار ہے لیکن اس کے پاس اپنا کوئی جنرل ہال نہیں جہاں تقریبات منعقد کی جا سکیں۔ انہوں نے وکلا کو مختلف کمپنیوں میں تعینات کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ قبل ازیں تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ سمیع اللہ خان نے نعت شریف پڑھی۔ ایک نابینا شاعر نثار احمد شاکر نے نظمیں سناکر حاضرین کو محظوظ کیا۔ ”میرا ارادہ ہے کہ شہر کو جلا دوں، جو تو کہے تو ارادہ بدل دوں“ پر حاضرین نے تالیاں بجاکر خوب داد دی۔ سٹیج پر لاہور بارکے سیکرٹری اسد عباس زیدی، جواد گل، سیکرٹری لاہور ٹیکس بار فرحان شہزاد، زاہد عتیق صدر، لاہور ہائیکورٹ کے جج صاحبان مقبول باجوہ، شاہد حمید، شیخ فہیم، افتخار شاہ، سیشن جج نذیر گجانہ، سینئر سول جج لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شہرام چودھری، صدر ہائیکورٹ بار راولپنڈی شیخ احسن، نائب صدر حفیظ الرحمان، ملک فیض کھوکھر، رانا جاوید، آغا مسعود، مس صائمہ، شیخ عامر ممتاز ملک، ساجد قریشی، انعام الحق، عامر بھٹی، نیک محمد، جسٹس خلیل الرحمان، ڈی جی جوڈیشل اکیڈمی تنویر احمد خاں، پراسیکیوٹر جنرل و دیگر موجود تھے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن