آخری میچ ہارنے کا پاکستانی قوم کو کوئی دکھ نہیں
بھارت نے پاکستان کو موجودہ سیریز کے تیسرے اور آخری ون ڈے کرکٹ میچ میں 10 رنز سے ہرا کر اپنی گرتی ہوئی پوزیشن کو تھوڑا سہارا دیا چونکہ پاکستان پہلے دو میچ جیت کر سیریز جیت چکا تھا اس لئے اس آخری میچ کے ہارنے کا پاکستانی قوم کو کوئی خاص دکھ نہیں ہوا۔ اگر پاکستان یہ میچ جیت کر وائٹ واش کرتا تو کیا ہی بات تھی۔ دھونی نے ٹاس جیت کر خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو میچ کا رزلٹ دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا فیصلہ درست ہی تھا کیونکہ پاکستان سے 168 رنز کا چھوٹا مارجن بھی حاصل نہ ہو سکا کیونکہ دوسرے وقت وکٹ بالکل اکھاڑہ ہی لگ رہی تھی۔ ناصر جمشید ایک مرتبہ پھر عمدہ کھیلے مگر تھوڑی سی جلدی کر گئے۔ محمد حفیظ اپنی باﺅلنگ پر کیچ لیتے زخمی تھے ان کی جگہ کامران اکمل کو اوپن کروائی گئی مگر اس پوری سیریز میں ان کا بیٹ نہ چل سکا البتہ انہوں نے اچھی وکٹ کیپنگ کا مظاہرہ کیا اور اظہرعلی کی جگہ عمراکمل کو کھلایا گیا اور عمراکمل نے ہیرو بننے کا ایک اور چانس گنوا دیا۔ نہ جانے ان کے پاﺅں دماغ عقل میں کونسی بیٹری فٹ ہے جو انہیں وکٹ پر ٹھہرنے نہیں دیتی۔ اتنا ٹیلنٹ ہونے کے باوجود وہ ٹیم میں اپنی جگہ نہیں بنا پا رہے۔ فی اوور انہیں صرف 4 رنز درکار تھے جو عمراکمل جیسا کھلاڑی کسی بھی بال پر حاصل کر سکتا ہے مگر وکٹیں چھوڑ کریز چھوڑ غرض اپنا کیرئیر چھوڑ پاکستان کا جیتا ہوا میچ چھوڑ غرض سب کچھ چھوڑچھاڑ کر کریز سے نکلنے کی کیا ضرورت تھی جس طرح عمراکمل نے عمدہ 25 رنز بنا لئے تھے نصف سنچری بھی بناتے پاکستان کو جتا کر ہیرو کا درجہ حاصل کرتے اور ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرتے۔ ان کی بیوقوفی سے ٹیم میں جگہ بھی پکی نہ ہوئی اور ٹیم میں جگہ پکی کرنے کیلئے گنتی پھر ایک سے شروع کرنی پڑ گئی۔ اپنی اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ پہلے ٹیسٹ کرکٹ سے باہر ہوئے۔ اب ون ڈے اور ٹی 20 کے لئے کوشاں ہیں۔ کاش! عمراکمل میں 10 سال کے بچے جتنا دماغ ہوتا۔ افسوس ہوتا ہے کہ ٹیلنٹ سے نہیں، کمزور سوچ، کمزور دماغ، کم تعلیم کی وجہ سے عمراکمل بڑا کرکٹر ابھی تک نہیں بن سکا۔ میں عمراکمل کا بہت بڑا فین ہوں اور کرکٹ کی زبان میں اسے ورلڈ کلاس کھلاڑی مانتا ہوں مگر اس کے کمزور دماغ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ مجموعی طور سے پاکستان نے بھارت میں عمدہ پرفارمنس دی۔ ناصر جمشید اُبھر کر سامنے آئے۔ محمد عرفان، جنید خان نے اپنی ٹیم میں شمولیت کا اہل ثابت کیا۔ اس دورے کے کئی لمحات بہت خوش آئند تھے جس میں بھارت کو بھارت میں ہرانا اور شاہد آفریدی، سہیل تنویر سے پاکستانی کرکٹ کی جان چھڑانا شامل ہے جس سے دورہ ساﺅتھ افریقہ یادگار دورہ ثابت ہو گا۔ کچھ لوگ بیوقوفوں والی بات ہمیشہ کی طرح کر رہے ہیں کہ پاکستانی ٹیم نے حکومت کے کہنے پر دہلی کا آخری میچ خیرسگالی اور دوستی کی بناءپر بھارت کو خود جتایا ہے۔ یہ سراسر بکواس ہے، کوئی بھی پاکستانی اتنا بے غیرت نہیں ہو سکتا کہ کشمیر کے تصفیہ کے بغیر یا یوں کہہ لیں کشمیر کو حاصل کئے بغیر بھارت سے دوستی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس ازلی دشمن سے کیسی دوستی جو ڈیم پر ڈیم بنا کر ہمیں تباہ کر رہے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے درست فرمایا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور درست ہی فرمایا تھا بھارت کے ڈیموں کی وجہ سے ہمارے بڑے بڑے دریا گھروں کی نالیاں بن گئی ہیں۔ ایسے دشمن سے دوستی خدا بچائے۔ ایسی دوستی سے موت بہتر ہے!