پاکستان سپورٹس بورڈ اولمپک ایسوسی ایشن کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر گیا‘ نیشنل گیمز دوبارہ کرانے کا فیصلہ
اسلام آباد+لاہور (نوائے وقت نیوز+کامرس رپورٹر) پاکستان سپورٹس بورڈ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سپورٹس پالیسی، نیشنل گیمز، سپورٹس بجٹ اور دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر عارف حسن اور ان کے ساتھیوں نے اجلاس میں شرکت نہ کی۔ پی او اے کے صدر نے پاکستان سپورٹس بورڈ کے اجلاس کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ وفاقی سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ فرید خان نے کہا کہ اس سال نیشنل گیمز اسلام آباد میں کرانے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان سپورٹس بورڈ نے 32ویں نیشنل گیمز کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ نئی نیشنل اولمپکس کے قیام کے لئے 7 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ اجلاس میں 40 فیڈریشن کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان سپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا تنازع شدت اختیار کر گیا۔ سپورٹس بورڈ نے نیشنل گیمز دوبارہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ 2013ءکے نیشنل گیمز پہلے ہی 2012ءمیں ہو چکے ہیں۔ سپورٹس بورڈ نے اولمپک ایسوسی ایشن کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر جنرل عارف حسن نے کہا ہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ پاکستان اولمپکس پر ایڈہاک لگانے کا اختیار نہیں رکھتا اور ان کے اس اقدام پر انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی پاکستان کی رکنیت معطل کر سکتی ہے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کی طرف سے پی اواے پر ایڈہاک لگائے جانے کے بعد اولمپکس ہاﺅس لاہور میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہو ئے جنرل (ر) عارف حسن نے کہا کہ سپورٹس بورڈ کی طرف سے پی او اے پر ایڈہاک لگائے جانے کے بارے میں ہمیں ابھی تک باضابطہ طور آگاہ نہیں کیا گیا۔ سپورٹس پالیسی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر والی بال فیڈریشن کی نظرثانی کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر لی ہے ۔پی او اے کے انتخابات کے حوالے سے ہائیکورٹ کے فیصلے پر بھی پی اواے کی نظرثانی کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر لی گئی ہے۔ جنر ل عارف حسن نے دعوی کیا کہ اجلاس میں سپورٹس فیڈریشنز کی اکثریت موجود نہیں تھی۔ نیشنل گیمز کروانا پاکستان اولمپکس کی ذمہ داری ہے۔ نیشنل گیمز ہوں گی ضرور مگر 2014ءمیں ہو گی۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کو آگاہ کرینگے رکنیت کی معطلی کا فیصلہ کرنا ان کا کا کام ہے۔ پی او اے کے معاملات میں یہ واضح طور پر حکومتی مداخلت ہے اور ہم یہ سب کچھ کروانے والوں کے بارے میں بھی آئی اوسی کو آگا ہ کریں گے۔ اس کے بعد فیصلہ کر نا ان کاکام ہے۔