لیکن اب کے سرگرانی اور ہے
-1ایک لانگ مارچ وہ تھا جو چین کے انقلابی رہنما موزے تنگ نے کیا تھا۔ فاصلوں کے علاوہ مسائل کا ایک گوہ گراں تھا۔ مشکلات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جسے عزم و ہمت کے ساتھ عبور کرکے اس نے ملک کے فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ موزے تنگ کے قدوقامت کے لوگ تو شاذونادر ہی پیدا ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کے بونے سیاستدان اس جیسی فہم و فراست اور حوصلہ نہیں رکھتے لیکن اس کے نعرے لانگ مارچ کو حرزِ جاں بنا لیا ہے۔ وقفے وقفے سے ہمارے لیڈران حکومت وقت کودھمکیاں دینے آئے ہیں۔ اسلام آباد پہنچ کر حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ حاکمان کو بھاگنے پر مجبور کر دیں گے ،وغیرہ! ہمارے ہاں اکثر لانگ مارچ کرنے والے اور ہوتے ہیں اور کرانے والے کوئی اور!
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
-2 مولانا طاہرالقادری نے دو بڑی پارٹیوں کے ”مک مکا“ اور ”ظلم“ کے خاتمے کے لئے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی جو دھمکی دی ہے اس کو بھی اس شعر کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ میڈیا کے تجسس کے علاوہ بھی ہر دو پارٹیوں نے طنز و تشنیع کے زہر آلود تیر برسانا شروع کر دئیے ہیں۔ ان کے بھونپو، حواری اور مداری مولانا سے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ جلسہ پر جو سو کروڑ روپے کا خرچ اٹھا ہے وہ کہاں سے آیا ہے؟ کون سی خفیہ ایجنسی ہے جس کے ایما پر وہ پاکستان پدھارے ہیں؟ آخر میں لڑکھڑاتے ہوئے لہجہ میں اور شاید آنکھوں پر کان دھرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا کا یہ غیر جمہوری منصوبہ بلبلہ ہے پانی کا۔ یہ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی ٹھس ہو جائے گا۔ بالفرض پہنچ بھی گیا تو کچھ نہیں ہو گا۔ غضب کا جاڑہ مظاہرین کے کڑاکے نکال دے گا۔ سی سی کرتے ہوئے لاکھوں لوگ ”سُو۔ سُو“ کا مسئلہ کیسے حل کریں گے؟ جس دن تھکے ہارے لوگ گھروں کو واپس لوٹیں گے اسی دن مولانا کا جہاز کینیڈا کی طرف حاملِ پرواز ہو گا۔
-3 مولانا کے اصل مقصد کو کریدنے سے پہلے آئیے ان پارٹیوں کے استدلال پر نظر ڈالیں سوا کروڑ کی خطیر رقم کوئی مولوی اپنی جیب سے تو خرچ نہیں کرتا۔ ایسی مہم جوئی جس میں خطرے ہی خطرے ہوں ویسے حکومت کو گرانا آسان نہیں ہوتا۔ پھر ایسے وقت میں جہاں دہشت گردی کے عفریت چار سُو اپنے مہیب جبڑے کھولے کھڑے ہوں۔ اگر کوئی طاقت اربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کر رہی ہے تو اس کا مخصوص ایجنڈا ہو گا۔ اس نے حالات کو دیکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہو گا۔ مولانا کے مشن کو کامیاب کرانے میں بھی اس کا خفیہ طاقتور ہاتھ کارفرما ہو گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک نااہل کرپٹ اور مسائل سے گھری ہوئی حکومت ان کے بڑھتے ہوئے قدم کیسے روک پائے گی؟
-4 طاہرالقادری سے جب ایک اینکر نے پوچھا کہ ان کی کامیابی کے امکانات کس قدر ہیں تو انہوں نے بڑا مدلل جواب دیا۔ فرمایا اگر نواز شریف اور بے نظیر کے لانگ مارچ کامیاب ہو سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف مارچ کئے اور دونوں نتیجتاً کامیاب ہوئے۔ 1993ءمیں محترمہ نے نواز شریف حکومت کے خلاف لاہور سے پنڈی تک مارچ کیا۔ جس گاﺅں، گلی یا علاقے سے لوگوں سے بھری ہوئی بسیں نکلیں انہیں وہیں روک دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو، کھر، اعتزاز احسن اور جہانگیر بدر کی پجارو گوجرانوالہ پولیس نے روک لی۔ سڑک پر جگہ جگہ بجلی کے کھمبے ڈال کر راستہ روکا گیا تھا۔ جہانگیر بدر نے گاڑی کھمبوں پر چڑھا کر نکلنے کی کوشش کی۔ جب پجارو کھمبے پھلانگتی ہوئی نکلی تو ڈیوٹی پر کھڑے ہوئے سپاہی نے کلاشنکوف کا پورا برسٹ دے مارا۔ گاڑی کے تمام ٹائر پھٹ گئے اور شیشے ٹوٹ گئے لیکن اندر بیٹھے ہوئے لیڈر معجزانہ طور پر بچ گئے۔ ایک گولی جیپ سے ٹکراتی ہوئی سڑک کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے چونگی محرر کے پیٹ میں جا لگی۔ اگر نصرت بھٹو زخمی ہو جاتیں تو ملک میں آگ لگ جانی تھی۔ پولیس نے سب کو حراست میں لے کر جیل میں بند کر دیا۔ میں اس وقت ڈی سی گوجرانوالہ تھا اور ملک محمد اقبال SSP تھے۔ بیگم نصرت بھٹو بیمار تھیں۔ ان کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر میں نے خانکی ہیڈ ورکس کے ریسٹ ہاﺅس کو سب جیل ڈیکلیئر کرا کر انہیں وہاں بھیج دیا۔ میں جب پھول اور کیک لے کر ان کی مزاج پرسی کے لئے وہاں گیا تو وہ شدید علالت کے باوصف کمرے سے باہر نکل آئیں حیران ہو کر بولیں
"I want to see commissioner who has , fearlessly brought
flowers for me"
-5 (میں اس ڈپٹی کمشنر کو دیکھنا چاہتی ہوں جو نواز حکومت میں بھی میرے لئے پھل پھول لایا ہے) یہ لوگ سات یوم تک اسیر رہے۔ سات یوم تک لیگی ممبران اسمبلی نے میرے خلاف شکایات کے انبار لگا دئیے۔ اس اثنا میں وزیراعظم صاحب نے کھر اور اعتزاز کی ”مزاج پرسی“ کا DIG کو خصوصی حکم دیا جس کو میں نے ناکام بنا دیا (اس کا تفصیلی ذکر کسی اور موقع پر کیا جائے گا) نتیجتاً غلام اسحاق نے میاں صاحب کی حکومت کو چلتا کیا۔ اسی طرح میاں نواز شریف نے جو لانگ مارچ کیا وہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی کامیاب ہو گیا۔ جس طاقت نے انہیں راستے میں فون کیا ،آیا وہ ایک بار پھر اپنا رول ادا کرے گی؟ اس بات کا قوی امکان ہے۔ یہ اس لئے نہیں ہو گا کہ مولانا اس قوت کے اشارے پر یا ان کا ایجنڈا پورا کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہیں۔ یہ قوم کو ملکی سالمیت اور نظام کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لئے کرنا پڑے گا۔ اگر لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسلام آباد پہنچ گئے اور انہوں نے پارلیمنٹ، قصر صدارت اور وزیراعظم ہاﺅس کا گھیراﺅ کر لیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے! کسی شرپسند کی ذرا سی بھی شرارت ہجوم کو مشتعل کر سکتی ہے۔ مولانا نے اپنے مریدوں کو چاہے کتنی ہی تربیت کیوں نہ دی ہو ہجوم کی نفسیات کو نہیں بدل سکتے! تحریک منہاج القرآن کے علاوہ ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوں کے لوگ بھی ہوں گے۔ ایسے لوگ غصہ جن کی ناک پر بیٹھا رہتا ہے۔ ڈپلومیٹک انکلیو بھی فسادات کی زد میں آ سکتا ہے۔ یہ وہ Scenerio ہے جس سے اہم مقتدر طاقتیں غافل نہیں رہ سکتیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھی نہایت سنجیدگی سے سوچ بچار کرنا چاہئے! مولانا کی مخالفت اپنی جگہ ان کے تو رازداں بھی رقیب بنتے جا رہے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ روٹھے ہوئے پارٹنر ہر دفعہ ”لولی پاپ“ لے کر مان جائیں۔ مذاکرات عافیت کا واحد راستہ ہیں۔ خدانخواستہ کل اگر کوئی بڑا سانحہ ہو گیا تو یہ بھی اس کے اتنے ہی ذمہ دار ہوں گے جتنا الزام مولانا قادری کے سر آئے گا۔