انتخاب یا انقلاب
پاکستان کو آج اپنے دور کے مرکزی سوال کے جواب کی تلاش ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا مسلسل انتخاب سے پاکستان کے قومی مسائل حل ہوسکتے ہیں یا پاکستان میں عوامی طاقت سے انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ہر باشعور شہری کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اس سوال پر غور و فکر کرنا چاہیئے۔ جب تک ہم ہر قسم کے سیاسی و مذہبی تعصب سے اوپر اُٹھ کر اس سوال کا جواب تلاش نہیں کریں گے ہم خدشات اور مایوسی کی دنیا میں بھٹکتے رہیں گے۔ پاکستان کے عوام 1970ءسے لے کر 2008ءتک آٹھ انتخابات دیکھ چکے ہیں۔ ہر انتخاب میں وہ اُمید اور توقع کے ساتھ ووٹ ڈالتے رہے مگر انتخابات کے نتیجے میں چند خاندان تو طاقت ور ہوتے رہے مگر عوام کو عزت کے ساتھ جینے کا حق بھی نہ مل سکا۔دور کیوں جائیں ہم 2008ءکے انتخابات کے بعد گزشتہ پانچ سالہ دور کو دیکھ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ موجودہ انتخابی نظام ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ اگر اسی نظام کے تحت ایک بار پھر انتخابات کرادئیے جائیں تو وہی چہرے دوبارہ پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے جنہوں نے عدلیہ کو زچ کرکے رکھ دیا۔ میڈیا کو حالات کا ماتم کرنے پر مجبور کیا اور عوام کو ہر قسم کی ٹینشن میں مبتلا کرکے ذلیل و خوار کردیا....
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہوگئی ہے
جب تک ریاست کے انتخابی سیاسی اور معاشی نظام میں بنیادی انقلابی تبدیلیاں نہ لائی جائیں پاکستان کا قبلہ درست نہیں ہوسکتا۔ انگریزوں نے غلام ریاست کے استحصال کیلئے جو نظام قائم کیا تھا آج بھی وہی نظام جاری و ساری ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے انگریز اپنی رعایا کو لوٹتے تھے اب سرمایہ دار، جاگیردار، سیاستدان اور سول ملٹری بیوروکریٹس اپنے شہریوں کو لوٹتے ہیں۔ یہ لٹیرے حکومت میں شامل ہوکر یا حکمرانوں سے ملی بھگت کرکے قومی دولت لوٹ لیتے ہیں جبکہ عوام خاموش تماشائی ہیں اور ان میں محاسبے اور مزاحمت کی سکت نہیں ہے۔ پاکستان کا سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصالی ریاستی نظام ہی تمام سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل کا سبب ہے۔ اس نظام کی بنیاد ہی ظلم، نا انصافی اور کرپشن پر قائم ہے اس نظام میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن نہیں ہے۔ یہ نظام ناکارہ، ناکام اور فرسودہ ہوچکا ہے۔ اسکی بنیاد پر کبھی اچھی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک غیر اخلاقی، غیر اسلامی، غیر انسانی اور غیر جمہوری نظام ہے۔ جو لوٹ مار کے ذریعے استحصال اور ارتکاز دولت کی اجازت دیتا ہے اور عوام کیلئے رزق کے دروازے بند کرتا ہے۔ اس نظام میں ملکی ادارے کمزور اور افراد طاقتور بن جاتے ہیں۔ موجودہ نظام عوام کی خدمت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس نظام میں عوام کی عزت نفس اور جان و مال محفوظ نہیں ہیں۔ 18 کڑور عوام خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کو بنیادی انصانی حقوق روٹی، روزگار، رہائش، تعلیم، صحت ، انصاف کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ جب تک پاکستان میں جاگیردارانہ استحصالی اور جابرانہ ریاستی نظام موجود ہے اور جب تک معاشی، تعلیمی، حکومتی، انتخابی، عدالتی، انتظامی اور پولیس کے نظام میں بنیادی انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں پاکستان میں اسلام کے سماجی انصاف کے اصولوں کے مطابق جدید جمہوری فلاحی ریاست اور عوامی جمہوریت کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ جب ریاستی کلچر کرپشن کا شکار ہوجائے اور سیاسی ذہنیت مفاد پرستی اور موقع پرستی میں ڈھل جائے تو ایسی ملک دشمن اور عوام دشمن ذہنیت اور کلچر کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔انقلابی تبدیلی کے بعد ہی ایسا سماج وجود میں آتا ہے جس میں تمام شہریوں کو بلا تفریق اور بلا امتیاز ترقی کے مساوی مواقع ملتے ہیں اور انہیں عزت سے جینے کا حق ملتا ہے۔ چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسا سماج وجود میں آسکے جس میں افراد کی عزت دولت کی بجائے انکے کردار کی بنیاد پر ہو اور ہر شہری کا احتساب صاف اور شفاف طریقے سے کیا جاسکے۔
پاکستان کے نوجوانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پانچ فیصد طبقے کی بالادستی میں رہنا چاہتے ہیں یا 95 فیصد طبقے کی بالادستی کے آرزومند ہیں۔ نوجوان پاکستان کی آبادی کا 70فیصد ہیں وہ اگر متحد اور منظم ہوجائیںتو پر امن انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے۔ انقلاب کے ذریعے موجودہ استحصالی نظام کو تبدیل کرکے عدل و انصاف پر مبنی نیا نظام نافذ کیا جائے۔ تمام قومی و عوامی مسائل کا واحد حل عوامی جمہوری انقلاب ہے۔ نبیوں نے بھی پرانا نظام بدل کر ہی انسانیت پر مبنی نیا نظام نافذ کیا تھا۔ انقلاب ایران کے بعد ہی شہنشائیت اور امریکی مداخلت کا خاتمہ ممکن ہوا تھا اور فرانس کے عوام نے انقلاب فرانس کے بعد ہی اپنے حقوق حاصل کیے تھے۔ چین نے بھی انقلاب کے بعد ہی معاشی ترقی کا عظیم ماڈل پیش کیا ہے۔ پاکستان میں بھی انقلاب کے ذریعے ہی جاگیردارانہ نظام، فوجی آمریت اور امریکی مداخلت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور پاکستان کی قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کے مطابق تشکیل نو کی جاسکتی ہے۔
آج جب کہ عوام انقلاب کے لیے تیار نظر آتے ہیں اور وہ انتخاب سے پہلے انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سیاسی رہنما بھی انقلاب کی مخالفت کرنے لگے ہیں جو اپنی پر جوش تقاریر میں انقلاب کی نوید سنایا کرتے تھے اور حبیب جالب کی نظمیں ترنم کے ساتھ گایا کرتے تھے۔ اگر سیاسی رہنما دل سے عوام کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں تو وہ ایسے انقلاب کی مخالفت کیوں کررہے ہیں جو فلاحی ریاست کے قیام کا سبب بن سکتا ہے۔ انتخابات سے پہلے اگر انتخابی اور سیاسی اصلاحات کرلی جائیں اور اس کے نتیجے میں متوسط طبقے کے نیک نام پڑھے لکھے افراد بھی پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں اور جمہوریت شراکتی اور متوازن ہوجائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ استحصالی طبقات نے اگر پر امن تبدیلی کو روکنے کی کوشش کی تو خونی انقلاب جنم لے گا اور جن لٹیروں نے عوام کے جان و مال کو لوٹا ہے خود ان کی اپنی جان ومال خطرے میں پڑ جائیں گے۔ استحصالی طبقات کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ تبدیلی اور انقلاب کا راستہ نہ روکیں اور انتخاب سے پہلے اصلاحات ہونے دیں تاکہ پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام حقیقی معنوں میں عوامی اور فلاحی بن سکے۔ جاگیردار ، سرمایہ دار طبقے اور ان کے حواری کبھی سٹیٹس کو کے خاتمے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے محنت کش افراد 14 جنوری کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کریں تاکہ پاکستان میں وہ نئی سحر طلوع ہوسکے جس کا پاکستان کے عوام طویل عرصے سے انتظار کررہے ہیں۔