• news

سپریم کورٹ کے نام پر بلیک میلنگ‘ مقدمہ درج‘ ہتھکڑی لگنی چاہئے : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کی سماعت سے متعلقہ دو اہم نوعیت کے مختلف مقدمات کے تفتیشی آفیسر کو سپریم کورٹ کے نام پر بلیک میل کرتے ہوئے تفتیش سے الگ کرنے پر چیئرمین نیب کے پرنسپل سیکرٹری بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق ناصر اعوان اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا کو آج عدالت میں ذاتی طور پر حاضر ہونے کا حکم جاری کرتے ہوئے رینٹل کیس سے متعلقہ تمام کیسز کی علیحدہ علیحدہ رپورٹس عدالت میں پی کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ یا ججز کے نام پر بلیک میلنگ اور دھوکہ دینے کی کوشش پر براہ راست ایف آئی آر درج ہونی اور ہتھکڑی لگنی چاہئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل فل بنچ نے کیس کی سماعت کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ ”سہوال پاور پراجیکٹ“ اور ”پیراں غائب پاور پراجیکٹ“ کیسز کی تفتیش پر مامور نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر راولپنڈی اصغر خان اور ایک اور تفتیشی آفیسر کامران فیصل کو چیئرمین، نیب کے پرنسپل سیکرٹری نے یہ کہہ کر تفتیش سے علیحدہ کر دیا ہے کہ ان کی تفتیش سے سپریم کورٹ خوش نہیں ہے اور اس حوالے سے انہیں ایک چٹھی بھی بھجوائی گئی ہے۔ عدالت کے حکم پر ڈپٹی ڈائریکٹر کے وکیل نے وہ چٹھی عدالت میں پیش کی جس کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر فوزی ظفر سے اس حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا مذکورہ تفتیشی نے رینٹل پاورز پروجیکٹ میں ”سہوال اور پیراں غائب ملتان“ دونوں مقدمات کی تفتیش مکمل کر لی ہے اور ذمہ داران کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کے ساتھ کیسز نیب ہیڈکوارٹر میں بورڈ کو بھجوا دیئے ہیں جبکہ یہی آفیسر ”ترکی کی پاور کمپنی کارکے“ کے کیس کی تفتیش بھی کر رہا تھا کہ پرنسپل سیکرٹری بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق ناصر اعوان نے 7 جنوری کو اسے چٹھی لکھ کر تفتیش سے الگ کر دیا ہے جس پر فاضل چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ فاروق اعوان کو دس منٹ کے اندر اندر عدالت میں پیش کیا جائے، سپریم کورٹ کا نام استعمال کر کے کسی کو ٹرانسفر کرنا اس کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بعدازاں جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ فاروق ناصر اعوان سے متعدد کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔ ان کا موبائل بھی آف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پرنسپل سیکرٹری کو کسی کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کا اختیار نہیں ہے۔ اسے یہاں آ کر نہ صرف عدالت بلکہ اس آفیسر سے بھی معافی مانگنی چاہئے، یہ کس بنیاد پر اتنے اہم کیس کے تفتیشی کو بلیک میل کر کے کہہ رہا ہے کہ تم سے سپریم کورٹ خوش نہیں ہے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر فوزی ظفر نے کیس میں مہلت اور التواءکی درخواست کی جس پر جسٹس عظمت شیخ سعید نے کہا کہ آپ کی درخواست پڑھ کر لگتا ہے کہ آپ جنرل طور پر نیب کے تمام کیسز پر التواءمانگ رہے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے التواءاور مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ 

ای پیپر-دی نیشن